پاکستان کا لسانی ورثہ: 74 زبانوں کا ادبی عجائب گھر

تصویر: Shazia Mehboob

اسلام آباد میں قائم کیے جانے والے ’’پاکستانی زبانوں کے ادبی عجائب گھر‘‘ کو 74 زبانوں کے تحفظ اور ان کے ثقافتی ورثے کے فروغ کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ پاکستان کا لسانی تنوع اس کی ثقافتی شناخت کی بنیاد ہے مگر عالمگیریت اور آبادیاتی تبدیلیوں کے باعث یہاں کئی زبانیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

پاکستان کا پہلا لسانی میوزیم

یہ ادبی عجائب گھر پاکستان میں زبانوں کے تحفظ اور فروغ کی پہلی کاوش ہے، جہاں 74 زبانوں کی بنیادی معلومات، رسم الخط اور قدیم مخطوطات محفوظ کیے گئے ہیں۔ منتظمین کے مطابق مستقبل میں سمعی و بصری مواد. اور انٹرایکٹیو سہولیات شامل کی جائیں گی. تاکہ نوجوان نسل ان زبانوں کے لہجوں، موسیقی اور لوک کہانیوں سے آشنا ہو سکے۔

 اکادمی ادبیات پاکستان کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا. کہ اس ادبی عجائب گھر میں نایاب اور معدومیت کے خطرات سے دوچار زبانوں کو شامل کیا گیا ہے، جن میں چترال کی دو زبانوں پر خصوصی دستاویزی فلمیں بھی تیار کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق یہ میوزیم قومی شناخت کے استحکام میں معاون ثابت ہو گا، تاہم. اس کے عملی اثرات کو مؤثر بنانے کے لیے. مزید کام کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہ ایک منفرد پروجیکٹ ہے، جو ملک کے ثقافتی ورثے اور لسانی تنوع کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ تنوع ہماری طاقت ہے. اور صدیوں پرانی تہذیب و فکری ارتقا کا ثبوت ہے۔‘‘

ماضی، حال اور مستقبل کا سنگم

وفاقی سیکرٹری حسن ناصر جامی نے پاکستانی زبانوں کے ادبی عجائب گھر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اس تہذیبی و ثقافتی ورثے کو ماضی، حال اور مستقبل کا سنگم قرار دیا۔ حسن ناصر کا کہنا تھا کہ ہر زبان قابلِ احترام ہے اور اس کا تحفظ ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے مادری زبانوں کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ حکومت کا قائم کردہ یہ عجائب گھر ملک کے لسانی و ثقافتی ورثے کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرے گا۔


تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.