پاکستان: اگست میں ریکارڈ ٹیکس جمع، 47 سال میں سب سے زیادہ مہنگائی

فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ اگست میں محصولات اکٹھے کرنے کے ہدف سے زیادہ رقم جمع کی گئی ہے۔ جو چار ارب 89 کروڑ روپے بنتی ہے جبکہ اسی ماہ مہنگائی کی شرح نے گذشتہ 47 سالہ ریکاڑد توڑ دیا ہے

اگست میں ریکارڈ ٹیکس جمع ہوا
پاکستان میں اگست میں ریکارڈ ٹیکس جمع ہوا

اگست کے اختتام پر ملک کے دو اہم اداروں نے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔

ایک جانب ایف بی آر نے اعلان کیا ہے۔ کہ ملک میں محصول جمع کرنے میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب ادارہ شماریات کی جانب سے اگست کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27.3 فیصد بتائی گئی ہے۔ جو 1975 کے بعد بلند ترین سطح پر ہے۔

ایف بی آر کا اعلامیہ

ایف بی آر نے کہا ہے کہ ’گذشتہ سال یعنی 2021 میں اگست کے ماہ میں جمع ہونے والے محصولات چار ارب 48 کروڑ روپے تھے۔‘

ایف بی آر کے مطابق ’اگست میں جمع ہونے والی مجموعی رقم پانچ ارب 62 کروڑ روپے ہے جو گذشتہ سال اسی ماہ چار ارب 62 کروڑ روپے تھی۔ رواں سال جولائی اور اگست میں مجموعی طور جمع کیے جانے والے محصولات نو ارب 48 کروڑ روپے ہیں جبکہ ان دو ماہ میں ایف بی آر کا ہدف نو ارب 26 کروڑ روپے تھا۔‘

ایف بی آر نے اعلامیے میں کہا ہے کہ ’محصولات کی رقم جمع ہونے میں یہ اضافہ حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو فنانس بل 2022 میں متعارف کروائی گئی تھیں۔‘

اعلامیے میں یہ بھی لکھا ہے۔ کہ ’ماضی کے برعکس اس مرتبہ امیروں اور صاحب حیثیت افراد پر ٹیکس لاگو کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے محصولات میں مقامی شرح 38 فیصد ہو گئی ہے۔‘

ایف بی آر نے یہ بھی کہا ہے۔ کہ ’اگست 2022 میں پیشگی محصول (ایڈوانس ٹیکس) کی مد میں گذشتہ سال اسی ماہ کے مقابلے میں 72 فیصد زیادہ ہیں۔‘

مہنگائی

ادارہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کہ ملک میں ماہ اگست کے دوران کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) یا آسان الفاظ میں مہنگائی کی شرح 27.3 فیصد رہی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ماہر اقتصایات خاقان حسن نجیب کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے۔ کہ یہ 1975 کے بعد ملک میں سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔

خاقان نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہر کوئی یہ سوال کر رہا ہے۔ کہ کیا مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ مہنگائی کی شرح 47 سال یعنی 1975 کے بعد بلند ترین سطح پر ہے۔‘

ادارہ شماریات کے مطابق جن اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ان میں سبزیاں، گندم اور خوردنی تیل سر فہرست ہیں۔

ملک کا بیشتر قابل کاشت رقبہ سیلاب کی وجہ سے زیر آب آ چکا ہے۔ جہاں اب کاشت کاری ممکن نہیں رہی۔ آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھاڑتی (این ڈی ایم اے)۔ کے مطابق ملک میں 20 لاکھ ایکڑ سے زائد قابل کاشت علاقہ سیلاب کی زد میں ہے۔

قابلِ کاشت رقبہ زیر آب آںے کی وجہ سے کھڑی فصلیں متاثر ہوئی ہیں جن میں کپاس، چاول، کھجور، ٹماٹر، مرچیں اور دیگر سبزیاں شامل ہیں۔ اسی طرح کئی مجموعی طور پر پانچ ہزار 63 کلومیٹر طویل سڑکیں بھی تباہ ہو چکی ہیں جس سے مواصلات کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا ہے۔

ان وجوہات کو بنیاد بنا کر سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے جس سے مہنگائی بھی بڑھی ہے۔

حکومتی اقدامات

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بدھ کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں کہا تھا۔ کہ ’ایک سے زیادہ بین الاقوامی ایجنسیوں نے ہم سے رابطہ کیا ہے۔ کہ انہیں بھارت سے زمینی راستے کے ذریعے اشیائے خورد درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔‘

انہوں نے مزید لکھا تھا کہ ’حکومت اپنے اتحادیوں اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد ملک میں اشیائے خورد کی موجودہ کمی کے تناظر میں بھارت سے درآمد کی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرے گی۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.