پاکستان اور انڈیا سمیت پوری دنیا میں لیجنڈ سمجھے جانے والے گلوکار اور قوال نصرت فتح علی خان کی 90 کی دہائی کی ایک البم ان کی وفات کے 27 سال بعد رواں سال ریلیز کی جا رہی ہے۔
یہ البم لندن کے ایک سٹوڈیو کے کسی سٹور روم میں 34 سال قبل رکھی گئی تھی. جسے ریئل ورلڈ ریکارڈز نے ’چین آف لائٹ‘ کا نام دیا ہے۔ کمپنی کے مطابق اس میں چار قوالیاں ہیں. جن میں ایک آج تک کبھی باقاعدہ طور پر ریلیز نہیں ہوئی تھی۔
اس البم کے دوبارہ ملنے کی کہانی خاصی دلچسپ ہے اور اگر سنہ 2021 میں ریئل ورلڈ سٹوڈیوز کو اپنی پرانی ریکارڈنگز کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا خیال نہ آیا ہوتا تو شاید یہ البم مزید کئی برس تک پرستاروں تک نہ پہنچ پاتی۔
پرستار
تاہم اب اس خبر کے بعد دنیا. بھر میں نصرت فتح علی خان کے پرستار اس البم کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ گویا کہ
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
نصرت کی آواز کا سحر ایسا ہے کہ ان کے مداحوں نے ابھی سے 20 ستمبر کی تاریخ اپنے پاس نوٹ کر لی ہے. یعنی وہ تاریخ جب یہ ریکارڈنگز ریلیز کی جائیں گی۔
نصرت فتح علی خان سنہ 1997 میں صرف 48 برس کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ شاید یہ ریکارڈنگز ان نسلوں کے لیے بھی نصرت کی گائیکی سے متعارف ہونے کا ذریعہ بنیں گی جنھوں نے اس صدی میں ہوش سنبھالا۔
لیکن 34 سال قبل ریکارڈ کی گئی. البم اب اتنے سالوں بعد منظرِ عام پر کیسے آئی؟ اس بارے میں ہم نے ریئل ورلڈ سٹوڈیوز سے بذریعہ ای میل اس حوالے سے بات کی ہے۔
’جب ہمیں یہ ٹیپ ملی تو ہمیں بہت خوشی ہوئی‘
یوں تو نصرت فتح علی خان کی آواز میں گائی گئی غزل ’آفرین‘ کے مطابق ’حسنِ جاناں کی تعریف ممکن نہیں‘ لیکن پھر بھی نصرت کے مداح اور گائیکی میں ان کے ساتھ اشتراک کرنے والے امریکی گلوکار جیف بکلی نے ان کی تعریف ان الفاظ میں کی تھی: ’ان میں بدھا بھی ہے، بھوت بھی اور ایک پاگل فرشتہ بھی۔۔۔ ان کی آواز مخملی آگ جیسی ہے، جس کا کوئی ثانی نہیں۔‘
یہ ریکارڈنگز ایک غیر ملکی لیبل کی جانب سے ریلیز کرنے کے اعلان کے بعد سے یہ سوال اکثر لوگوں نے پوچھا کہ نصرت فتح علی خان کے غیر ملکی مداح کب اور کیسے بنے؟
ریئل ورلڈ ریکارڈز کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق پیٹر گیبریئل اور ریئل ورلڈ ریکارڈز سے نصرت فتح علی خان کا رشتہ سنہ 1985 کے WOMAD فیسٹیول میں ان کی پرفارمنس کے بعد گہرا ہوا۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب نصرت نے مکمل طور پر مغربی شائقین کے سامنے پرفارم کیا تھا۔
پرفارمنس
وہ اپنے ساتھ نو افراد پر مشتمل قوال پارٹی بھی لائے تھے اور یہ پرفارمنس ایسیکس میں چھوٹے سے علاقے میریسا آئی لینڈ پر منعقد ہوئی۔ فیسٹیول میں آنے والے افراد نے رات گئے تک چلنے والا یہ شو سنا جو تاریخ رقم کرنے والا تھا۔
اس تاریخی فیسٹیول کے فوراً بعد انھیں اس لیبل کے لیے سائن کر لیا گیا اور یہاں سے ان کی بین الاقوامی ساکھ میں اضافہ ہونے لگا۔ انھوں نے گیبریئل کے ساتھ 1989 میں ان کی البم پیشن میں بھی گایا جو فلم ’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘ میں فیچر ہوئی۔
پیٹر گیبریئل کہتے ہیں کہ ’میں نے دنیا بھر سے متعدد موسیقاروں کے ساتھ کام کیا ہے. کہ لیکن شاید ان میں سے سب سے عظیم گلوکار میرے وقت میں نصرت فتح علی خان تھے۔ جو وہ اپنی آواز سے کر سکتے تھے اور آپ کو محسوس کروا سکتے تھے. وہ غیر معمولی احساس تھا. اور ہمیں اس بات پر فخر ہے. کہ ہم انھیں عالمی سطح پر متعارف کراونے میں کردار ادا کر پائے۔ جب ہمیں یہ ٹیپ ملی تو ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ اس البم میں وہ اپنی ہنر کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں۔‘