پاکستان میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) نے ہدایت دی ہے کہ صحت عامہ سے منسلک تمام قومی و صوبائی حکام منکی پوکس کے مشتبہ متاثرین کی جانچ کے لیے ہائی الرٹ پر رہیں۔ جبکہ ایئرپورٹس سمیت داخلی راستوں پر مسافروں کی نگرانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جاری کردہ الرٹ کے مطابق حفاظتی اقدامات کے لیے وقت پر تشخیص اہم ہے لہذا تمام سرکاری و نجی ہسپتال متاثرین کے علاج اور آئسولیشن (مریض کو تنہائی میں رکھنے) کے انتظامات کریں۔ این آئی ایچ نے یہ بھی وضاحت کی ہے فی الحال پاکستان میں منکی پوکس کا کوئی مصدقہ کیس موجود نہیں ہے۔
’منکی پوکس کے پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکتا ہے‘: ڈبلیو ایچ او
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ افریقہ کے باہر منکی پوکس کے پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکتا ہے اور عام طور پر افریقہ میں اس کے متاثرین کی تشخیص نہیں کی جاتی۔ برطانیہ میں اب تک منکی پوکس کے 56 متاثرین سامنے آئے ہیں۔
اب تک منکی پوکس کے 100 سے زیادہ متاثرین سامنے آچکے ہیں جن کی جلد پر دانے نکلتے ہیں اور انھیں بخار کی شکایت ہوتی ہے۔ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا میں اس کے متاثرین کی تشخیص ہوئی ہے۔
ماہرین کو ڈر ہے کہ اس کے متاثرین کی تعداد بڑھ سکتی ہے لیکن وسیع پیمانے پر آبادی کو درپیش خطرہ کم بتایا گیا
مرکزی اور مغربی افریقہ کے دوردراز علاقوں میں یہ وائرس عام ہے۔
عالمی ادارہ صحت میں نئی بیماریوں کے پھیلاؤ پر کام کرنے والی ماریا وان خرکوف کہتی ہیں کہ ‘اس صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔’
پیر کو نیوز کانفرنس کے دوران انھوں نے بتایا کہ ‘ہم انسانوں سے انسانوں میں وائرس کی منتقلی روکنا چاہتے ہیں۔ ایسے ملکوں میں یہ ممکن ہے جہاں وائرس اس قدر نہیں پھیلا۔’ ان کا اشارہ یورپ اور شمالی امریکہ میں سامنے آنے والے کیسز کی طرف تھا۔
افریقہ کے باہر اس وائرس کے اب تک 16 ملکوں میں متاثرین سامنے آئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کورونا وائرس کی طرح اتنی تیزی سے نہیں پھیلتا۔ ماریا کے مطابق ‘وائرس کی منتقلی جِلد سے ہو رہی ہے۔ اکثر لوگوں میں بیماری کی شدت معتدل ہے۔’
منکی پوکس کا علاج کیا ہے؟
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق یہ ایک نایاب وائرل انفیکشن ہے جو اثرات کے اعتبار سے عام طور پر ہلکا ہوتا ہے اور اس سے زیادہ تر لوگ چند ہفتوں میں ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
وائرس لوگوں کے درمیان آسانی سے نہیں پھیلتا اور اس لیے اس کا بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کے حوالے سے خطرہ بہت کم بتایا جاتا ہے۔
منکی پوکس کے لیے کوئی مخصوص ویکسین موجود نہیں ہے، لیکن چیچک کا ٹیکہ 85 فیصد تحفظ فراہم کرتا ہے کیونکہ دونوں وائرس کافی ایک جیسے ہیں۔
منکی پوکس کتنا عام ہے؟
یہ بیماری منکی پوکس نامی وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے، جو چیچک جیسے وائرس کی شاخ میں سے ہے۔
یہ زیادہ تر وسطی اور مغربی افریقی ممالک کے دور دراز علاقوں میں، ٹراپیکل بارش کے جنگلات کے قریب پایا جاتا ہے۔
اس وائرس کی دو اہم اقسام، مغربی افریقی اور وسطی افریقی ہیں۔
برطانیہ میں متاثرہ مریضوں میں سے دو نے نائجیریا سے سفر کیا تھا، اس لیے امکان ہے کہ وہ مغربی افریقی قسم کے وائرس کا شکار ہیں، جو کا اثر عام طور پر ہلکا ہوتا ہے لیکن یہ ابھی تک غیر مصدقہ ہے۔
ایک اور معاملہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکن میں سامنے آیا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں کسی مریض سے یہ وائرس منتقل ہوا ہے۔
مزید حالیہ معاملات کے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی معلوم روابط یا سفر کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ برطانیہ میں کمیونٹی میں پھیلنے سے ہوا ہے۔
برطانیہ کی ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی اگر اندیشہ ہو کہ وہ متاثر ہوئے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ کسی ماہر صحت سے ملیں۔
علامات کیا ہیں؟
ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، سوجن، کمر میں درد، پٹھوں میں درد اور عام طور کسی بھی چیز کا دل نہ چاہنا شامل ہیں۔
ایک بار جب بخار جاتا رہتا ہے تو جسم پر دانے آ سکتے ہیں جو اکثر چہرے پر شروع ہوتے ہیں، پھر جسم کے دوسرے حصوں، عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلوے تک پھیل جاتے ہیں۔
دانے انتہائی خارش یا تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔ دانے میں بدلنے سے قبل یہ مختلف مراحل سے گزرتے ہیں اور بعد میں یہ دانے سوکھ کر گر جاتے ہیں لیکن بعد میں زخموں سے داغ پڑ سکتے ہیں۔
انفیکشن عام طور پر خود ہی ختم ہو جاتا ہے اور 14 سے 21 دنوں کے درمیان رہتا ہے۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
جب کوئی متاثرہ شخص کے ساتھ قریبی رابطے میں ہوتا ہے تو اس میں منکی پوکس پھیل سکتا ہے۔ یہ وائرس ٹوٹی اور پھٹی ہوئی جلد، سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔
اسے پہلے جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن کے طور پر بیان نہیں کیا گیا تھا، لیکن یہ جنسی تعلقات کے دوران براہ راست رابطے سے منتقل ہو سکتا ہے۔
یہ بندروں، چوہوں اور گلہریوں جیسے متاثرہ جانوروں کے رابطے میں آنے سے بھی پھیل سکتا ہے یا وائرس سے آلودہ اشیاء، جیسے بستر اور کپڑوں سے بھی پھیل سکتا ہے۔
یہ کتنا خطرناک ہے؟
وائرس کے زیادہ تر اثرات ہلکے ہوتے ہیں، بعض اوقات چکن پاکس سے ملتے جلتے ہوتے ہیں، اور چند ہفتوں میں خود ہی صاف ہو جاتے ہیں۔
تاہم منکی پوکس بعض اوقات زیادہ شدید ہو سکتا ہے، اور مغربی افریقہ میں اس کی وجہ سے اموات کی بھی اطلاعات ہیں جن کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔
کیا ہم جنس پرست مردوں کو زیادہ خطرہ ہے؟
اگرچہ کچھ معاملات ہم جنس پرستوں اور دونوں جنسوں میں رجحان رکھنے والے بائسیکشوئل مردوں میں دیکھے گئے ہیں، لیکن جو بھی شخص کسی ایسے شخص کے ساتھ قریبی رابطے میں آتا ہے جس کو منکی پوکس ہے وہ ممکنہ طور پر وائرس کا شکار ہو سکتا ہے۔
یو کے ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی نے کہا ہے کہ برطانیہ اور یورپ میں حالیہ کیسز کا ’قابل ذکر تناسب‘ ہم جنس پرستوں اور بائسیکشوئل مردوں میں پایا گیا ہے ’لہٰذا ہم خاص طور پر ان کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ ان کی علامات کے متعلق چوکنا رہیں اور اگر انھیں خدشات ہوں تو مدد حاصل کریں۔‘
اس کا پھیلنا کتنا عام ہے؟
اس وائرس کی شناخت سب سے پہلے ایک قیدی بندر میں کی گئی تھی اور سنہ 1970 کے بعد سے 10 افریقی ممالک میں اس کے پھیلنے کی اطلاع ملی ہے۔
سنہ 2003 میں امریکہ میں ایک وبا پھیلی تھی جو پہلی بار افریقہ سے باہر دیکھی گئی تھی۔ مریضوں میں یہ بیماری پریری کتوں کے قریبی رابطے سے آئی تھی جو ملک میں درآمد کیے گئے چھوٹے میملز سے متاثر ہوئے تھے۔
اس وقت کل 81 کیسز رپورٹ ہوئے، لیکن کسی کی موت نہیں ہوئی۔ سنہ 2017 میں نائیجیریا میں اس کی سب سے بڑی وبا دیکھی جس کے تحت 172 مشتبہ کیسز سامنے آئے اور 75 فیصد متاثرین 21 سے 40 سال کی عمر کے مرد تھے۔
اس کا علاج کیا ہے؟
منکی پوکس کا کوئی علاج نہیں ہے، لیکن انفیکشن کی روک تھام کے ذریعے پھیلاؤ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
چیچک سے بچاؤ کی ویکسینیں 85 فیصد تک مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔
برطانیہ نے چیچک کی ویکسین کی خوراک خریدی ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے ٹیکے دیے جا سکتے ہیں۔
اینٹی وائرل ادویات بھی اس کے علاج میں مدد کر سکتی ہیں۔
کیا عوام کو فکر مند ہونا چاہیے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم قومی وبا کے دہانے پر نہیں ہیں اور یو کے ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی (UKHSA) کے مطابق اس کے پھیلنے کا خطرہ کم ہے۔
ناٹنگھم یونیورسٹی کے مالیکیولر وائرولوجی کے پروفیسر جوناتھن بال نے کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ منکی پوکس سے متاثرہ مریض کے 50 رابطوں میں سے صرف ایک ہی متاثر ہوتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وائرس کتنا کم متعدی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘یہ سوچنا غلط ہو گا کہ ہم ملک گیر وبا کے دہانے پر ہیں۔’
UKHSA ان لوگوں کو مشورے دے رہا ہے اور ان کی نگرانی کر رہا ہے جو اس وبا کی زد میں آنے والوں کے قریبی رابطے میں رہے ہوں۔
ذرائع: UKHSA اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن