ادیبہ اور سماجی کارکن فاطمہ بھٹو جمعرات کو شادی کے بندھن میں بندھ گئیں۔ انہوں نے سادگی سے نکاح کی تقریب منعقد ہونے پر اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی اور سابق وزیراعطم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی41 سالہ فاطمہ بھٹو نے ٹوئٹر پر لکھا: ’کل میری شادی گراہم (جبران) سے .(کراچی میں واقع) ہمارے آبائی گھر 70 کلفٹن میں ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ تقریب دادا کی لائبریری میں ہوئی جس میں ان کے والد اور ان کے بہن بھائیوں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں جبکہ ان کے دادا ذوالفقار علی بھٹو کا ماضی میں سجایا ہوا پی پی پی کا جھنڈا بھی وہیں پر موجود تھا۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ ’شادی کی کوئی اور .تقریب نہیں ہوگی‘ کیونکہ وہ شاہانہ شادی کی تقریبات کی شوقین نہیں اور خاص طور پر ایسے وقت میں جب بہت سے لوگ .معاشی مشکلات کا شکار ہوں۔
میر مرتضی بھٹو کی بیٹی نے مزید کہا: ’مجھے اپنے پیارے والد کی بے انتہا یاد آئی مگر وہ ہمارے ساتھ تھے۔
’میں نے انہیں اپنے دل میں محسوس کیا اور ہمارے ساتھ موجود سب پاپا سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ہمیں دعاؤں میں یاد رکھیے گا اور سب کی نیک تمناؤں کا شکریہ۔‘
شادی کا اعلان
جمعے کو فاطمہ بھٹو کی شادی کا اعلان ان کے چھوٹے بھائی. اور آرٹسٹ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے ٹوئٹر پر کیا اور انسٹاگرام پر نئے نویلے جوڑے کی تصویر شیئر کی۔
ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے اپنی ٹوئٹ اور انسٹا پوسٹ میں لکھا: ’شادی کی تقریب میں فاطمہ بھٹو کے چاہنے والوں نے شرکت کی۔ شادی کی. تقریب ہمارے دادا کی لائبریری میں ہوئی جو میری بہن کے لیے بہت معنی رکھتی ہے۔‘
’ہم وطنوں کو درپیش مشکلات کے باعث ہمیں محسوس ہوا کہ اس تقریب کو شاہانہ انداز میں رکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ فاطمہ بھٹو اور گراہم (جبران) کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔‘
ٹوئٹر پر ذوالفقار علی بھٹو. کی ٹوئٹ پر سیاست دانوں. ادیبوں، صحافیوں اور عام لوگوں نے مبارک باد دینے ساتھ نئے جوڑی کو ڈھیروں دعائیں بھی دیں۔
فاطمہ بھٹو کی والدہ اور میر مرتضیٰ کی بیوہ غنویٰ کی سربراہی. میں قائم پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کی رہنما فیروزا لاشاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شادی کی تقریب انتہائی سادہ اور مختصر افراد کی موجودگی میں ہوئی۔
بقول فیروزا لاشاری: ’شادی کی تقریب میں صرف گھر کے افراد، ملازمین اور کچھ انتہائی قریبی دوستوں نے شرکت کی۔ شادی میں کل 15 سے 20 افراد نے شرکت کی۔‘
دادی نصرت بھٹو کی مشابہہ
بہت سے لوگوں نے اپنے تاثرات کا اظہار بھی کیا، کسی کو لگا کہ وہ اپنی دادی نصرت کی مشابہہ ہیں۔
وہ 29 مئی، 1982 کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پیدا ہوئیں۔ اس وقت ان کے والد میر مرتضیٰ بھٹو سابق فوجی آمر ضیا الحق کے دور حکومت میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
فاطمہ نے 2004 میں کولمبیا یونورسٹی. سے مڈل ایسٹرن لینگویج اینڈ کلچرز سے ماسٹرز کیا۔
2005 میں سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹدیز سے سائوتھ ایشین گورنمنٹ اینڈ پالیٹکس میں ماسٹرز بھی کیا۔
فاطمہ بھٹو کی پہلی کتاب ’وسپرز آف دا ڈیزرٹ (Whispers of the Desert)‘ شاعری کا مجموعہ تھی، جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان نے 1997 میں چھاپی، جب ان کی عمر 15 سال تھی۔
2006 میں کشمیر میں زلزلے میں بچ جانے. والے افراد کی کہانیوں. پر مشتمل کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان نے چھاپی۔
2010 میں چھپنے والے ا.ن کی غیرافسانوی کتاب ’خون و شمشیر کے گیت (Songs Of Blood And Sword)‘. ان کے خاندان کو درپیش آنے والے. واقعات پر مشتمل ہے۔
فاطمہ دا نیوز، گارڈین، نیو سٹیٹس مین، ڈیلی بیسٹ اور دا کاروان میگزین سمیت کئی اخبارات اور جرائد کے لیے بھی لکھتی رہی ہیں۔
3540468854187