شاہ عبدالعزیز کے بیٹے کے ہاتھوں سفارتکار کے قتل کے بعد شراب پر لگائی گئی پابندی سعودی حکام اب کیوں ختم کرنے جا رہے ہیں؟

یہ 16 نومبر 1951 کی بات ہے جب سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم برطانیہ کے سفیر سِرل عثمان نے اپنے گھر میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔

اس تقریب میں مدعو کیے گئے دیگر افراد کے علاوہ مہمانوں میں سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز ابن عبدالرحمن آل سعود کے 19 سالہ بیٹے مشری بن عبدالعزیز بھی موجود تھے۔ برطانوی سفارتکار سِرل عثمان سنہ 1929 سے سعودی عرب میں مقیم تھے، ابتدا میں وہ یہاں بطور انجینیئر کام کرنے آئے تھے. مگر بعدازاں وہ جدہ میں برطانیہ کے وائس کونسل بنا دیے گئے۔

اس تقریب کے دوران مہمانوں کے لیے شراب کا بندوبست بھی کیا گیا تھا. اور شاہ عبدالعزیز کے بیٹے بھی پینے والوں میں شامل تھے۔ مشری بن عبدالعزیز اپنے پینے کی مقررہ حد پوری کر چکے تھے. مگر اُن کا ضد تھی کہ انھیں ایک اور ڈرنک (جام) بنا کر دیا جائے۔ تاہم برطانوی سفارتکار سِرل عثمان نے انھیں مزید جام کر دینے سے انکار کر دیا۔

اس انکار پر مشری بن عبدالعزیز سفارتکار کے گھر سے نکل گئے. تاہم تھوڑی دیر بعد ان کی واپسی اسی گھر میں ایک پستول کے ہمراہ ہوئی۔ شراب کے نشے میں چُور مشری بن عبدالعزیز نے مزید جام دینے سے انکار کی پاداش. میں برطانوی سفارتکار پر فائرنگ کر دی جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔

قتل کا مقدمہ

مشری بن عبدالعزیز پر قتل کا مقدمہ چلا اور الزام ثابت ہو گیا. تاہم آل سعود سے تعلق کی وجہ سے انھیں سزائے موت دینے کے بجائے عمر قید کی سزا سنائی گئی. اور شاہ سعود ہی کے دور میں انھیں رہا کر دیا گیا۔

قتل کا یہ واقعہ 1951 میں پیش آیا تھا۔ اس واقعے کے ایک سال بعد یعنی سنہ 1952 میں شاہ عبدالعزیز نے سعودی عرب بھر میں الکوحل یعنی شراب پر مکمل پابندی کر دی۔

یاد رہے کہ مذہب اسلام میں شراب ممنوع ہے۔ سعودی عرب میں بھی یہ ممنوع ہی تھی. تاہم قتل کا یہ واقعہ پیش آنے اور اس کے بعد شراب پر لگنے والی سخت پابندی سے قبل سعودی حکام شراب کے معاملے پر صرفِ نظر کیا کرتے تھے۔۔

تصویر
،سعودی عرب میں شراب کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی سنہ 1952 میں اس وقت لگائی گئی جب شاہ عبدالعزیز ابن عبدالرحمن آل سعود کے 19 سالہ نے نشے کی حالت میں ایک سفارتکار کو گولی مار کر ہلاک کیا

تاہم اب اس واقعے کے لگ بھگ 71 سال بعد سعودی حکام نے کہا ہے. کہ وہ ریاض میں شراب کی فروخت کے لیے ایک دکان کھولیں گے۔ حکام کا کہنا ہے اس دکان سے شراب کی فروخت صرف سعودی عرب میں رہنے والے منتخب غیرمسلموں کو کی جائے گی۔

شراب کی فروخت

حکام کا کہنا ہے کہ اس دکان سے شراب کی فروخت صرف مملکت میں مقیم اس سفارتی عملے تک ہی محدود ہو گی، جو گذشتہ کئی دہائیوں سے سفارتی پاؤچز کے نام سے سیل بند سرکاری پارسلوں میں اپنے ممالک. سے پینے کے لیے شراب سعودی عرب منگواتے ہیں۔

سعودی حکام کا کہنا ہے کہ شراب کی فروخت کی یہ دکان کھولنے کا مقصد ’شراب کے غیرقانونی کاروبار‘ کا قلعہ قمع کرنا ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق سعودی عرب کا یہ پہلا شراب خانہ ریاض. میں واقع ڈپلومیٹک کوارٹرز میں کھولا جائے گا۔ اس معاملے سے باخبر ایک ذریعے نے .’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ شراب کی فروخت کی یہ دکان آئندہ چند ہفتوں میں کُھل جائے گی

ریاض میں شراب کیسے حاصل کی جا سکے گی؟

Saudi Arabia, Alcohol, Riyadh, Crown Prince
،تصویر کا کیپشنشراب خانوں کو 21 برس سے کمر عمر لوگوں کو شراب فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی
  • وہ سفارتکار یا سفارتی عملہ جو شراب خریدنا یا پینا چاہتے ہیں. انھیں پہلے سعودی حکام کے پاس اپنی رجسٹریشن کروانی ہو گی. اور اس ضمن میں باقاعدہ اجازت نامہ لینا ہو گا
  • 21 برس سے کم عمر کے افراد کو شراب کی فروخت ممنوع ہو گی
  • حکومت کے پاس رجسٹرڈ افراد شراب کے حصول کے لیے. اپنی جگہ کسی اور شخص کو نہیں بھیج سکیں گے، جیسا کہ ڈرائیور وغیرہ
  • حکام کے مطابق ہر رجسٹرڈ شخص ہر مہینے ایک مخصوص مقدار سے زیادہ شراب حاصل نہیں کر سکے گا

اے ایف پی کو اس ضمن میں چند دستاویزات تک رسائی حاصل ہوئی ہے. جن کے مطابق ہر رجسٹرڈ شخص کو الکوحل کے ماہانہ زیادہ سے زیادہ 240 ’پوائنٹس‘ ہی مل سکیں گے .(یاد رہے کہ ایک لیٹر شراب کا مطلب 6 پوائنٹس ہے، ایک لیٹر وائن کا مطلب. تین پوائنٹس جبکہ ایک لیٹر بیئر کا میں ایک پوائنٹ ہوتا ہے)۔

سعودی حکام کی جانب سے جاری ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے. کہ وہ شراب کی خرید و فروخت کے لیے. ایک حد مقرر کریں گے۔

اجازت کا دائرہ

اب تک یہ معلوم نہیں ہے ابتدا میں سفارتکاروں کو شراب کی فروخت کی اجازت کا دائرہ مستقبل میں عام غیرملکیوں تک بھی بڑھایا جائے گا یا نہیں۔ یاد رہے. کہ موجودہ سعودی قوانین کے مطابق شراب کو پینے، خریدنے اور اس کی فروخت کی سزا جرمانے، قید سخت اور. عوامی مقام پر کوڑے لگانے تک ہو سکتی ہے۔

ماہرین کی جانب سے سعودی حکومت کے اس اقدام کو ولی عہد محمد بن سلمان کے ’وژن 2030‘ کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے جس کا مقصد سعودی معاشرے کو کسی حد تک لبرل کرنا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد متعدد تبدیلیاں آئی ہیں اور سعودی مملکت میں شراب خانہ کھولنے کے عمل کو اُن ہی کے ایجنڈے کا حصہ تصور کیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کو جون 2017. میں شہزادہ محمد بن نائف کو ہٹا کر ولی عہد مقرر کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ میں ہم محمد بن سلمان کے ’وژن 2030‘ کے تحت لیے جانے والے چند بڑے اقدامات کا جائزہ لیں گے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.