سوات میں طالبان کی جانب سے حالیہ کارروائیوں کے نتیجے میں ممکنہ فوجی آپریشن کی خبریں گرم ہیں۔ تاہم تاحال اس حوالے سے سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
مختلف مقامات پر سیکورٹی چیک۔ پوسٹوں کا قیام، ایس ایس جی کمانڈوز کے خصوصی دستوں کے آمد کی اطلاعات، بالائی علاقوں تک سیکورٹی فورسز کی پیش قدمی اور پولیس کے ساتھ مشترکہ طور پر سرچ آپریشن کے علاوہ سوات کے داخلی و خارجی راستوں پر چیکنگ۔ سے یہ تاثر لیا جا رہا ہے کہ آئندہ چند دنوں میں طالبان کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا جائے گا۔
دوسری جانب وفاقی حکومت اور متعلقہ ادارے اس بات کی تردید کر رہے ہیں۔ کہ ایسا کوئی آپریشن ہونے والا جبکہ انتظامیہ، پولیس اور حکومتی نمائندوں نے بھی چھپ سادھ رکھی ہے اور کسی بھی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا جا رہا۔
خدشات کیوں بڑھ رہے ہیں؟
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں طالبان کی موجودگی کی اطلاعات اگست کے مہینے میں منظر عام پر آئی تھی۔ تاہم 8 اگست کو تحصیل مٹہ کے علاقہ کنالہ میں ڈی ایس پی پیر سید اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کے اغواء۔ اور بعد ازاں جاری کردہ ایک ویڈیو کی وجہ سے سوات میں طالبان کی موجودگی کے خدشات بڑھ گئے تھے۔
طالبان کمانڈر کی ایک آڈیو بھی لیک ہوئی تھی۔ جس میں وہ کہہ رہے تھے۔ کہ وہ حکومت پاکستان کے ساتھ مبینہ مذاکرات کے نتیجے میں واپس آئے ہیں۔
اس واقعے کے بعد حکومت اور سیکورٹی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ جس کے بعد یہ خبر سامنے آئی کہ مقامی جرگہ سے مذاکرات کے بعد طالبان واپس چلے گئے ہیں۔
اس واقعے کے اگلے ہی روز پولیس نے کچھ تصاویر شائع کی تھی۔ جس میں مٹہ کے علاقہ بالاسور اور کنالہ میں پولیس چیک پوسٹ قائم کر لی گئی تھی۔
سوات کی تحصیل کبل کے علاقہ برہ بانڈئی کوٹکے میں 14 اگست کو امن کمیٹی کے سربراہ ادریس خان کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ ہوا۔ جس میں ادریس خان، دو پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد مارے گئے تھے پھر اگلے ہی روز تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی گئی تھی۔
اُسی روز موبائل کمپنی کے ٹاور میں کام کرنے والے سات افراد کو علاقہ جانا سے اغواء کیا گیا۔ چارباغ کے علاقہ دکوڑک میں امن کمیٹی کے دو ارکان قتل ہوئے، مالم جبہ میں پولیس کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔۔جبکہ متعدد حکومتی و دیگر سیاسی رہنماؤں کو بھتے کے لیے دھمکی آمیز خطوط و پیغامات بھی موصول ہوئے۔