’جب سے تمر (مینگروز) کے درخت لگنا شروع کیے ہیں، ہمیں اضافی آمدن ہوتی ہے۔ خواتین مل کر اِس کے بیج تلاش کرنے جاتی ہیں۔ جو جتنے بیج اکھٹے کرتا ہے، اس کو اتنے پیسے ملتے ہیں۔۔۔‘
صوبہ سندھ میں ٹھٹہ کے ساحلی شہر کیٹی بندر کے ایک جزیزے نما گاؤں. ’حسن اترادی‘ کی رہائشی خاتون فاطمہ نے بتایا کہ اُن سمیت اُن کے علاقے کی خواتین سال میں چھ ماہ بیج اکھٹے کرنے کا کام کرتی ہیں۔ ’اس کام کے عوض ہمیں کبھی ایک ہزار تو کبھی دو ہزار روپے تک یومیہ اجرت مل جاتی ہے۔‘
فاطمہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے محکمہ جنگلات کے ’ڈیلٹا بلیو کاربن ٹریڈنگ پراجیکٹ‘ پر کام کرتی ہیں۔ صوبائی حکومت کے مطابق نجی کمپنیوں کی شراکت کے اس منصوبے کے ذریعے چار کروڑ ڈالر کمائے جا چکے ہیں۔
اس کے تحت سندھ کے تین شہروں دادو، ٹھٹہ اور کراچی کے ساحلی علاقوں میں تمر کے درخت اور جنگلات لگائے جا رہے ہیں۔
یہ درخت اور جنگلات صرف ماحول کو بہتر کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کا ایک مقصد کاربن ٹریڈنگ بھی ہے۔
فاطمہ کے خاوند مچھیرے ہیں۔ ان کے بقول جب سے انھوں نے یہ کام کرنا شروع کیا ہے تب سے ان کے مالی حالات میں بہتری آئی ہے۔ ’میں تو کہتی ہوں کہ یہ کام زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے تاکہ ہمارے گاؤں اور علاقے کی خواتین کو زیادہ کام ملے۔‘
مصطفیٰ گل بھی خوش ہیں کہ انھیں اب درخت لگانے اور پھر ان کی رکھوالی کرنے کے عوض پیسے ملتے ہیں۔ وہ تمر درخت لگانے. کے اس کام سے چار سال پہلے وابستہ ہوئے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ کام ہمارے گھر کے قریب ہی ہو رہا ہے۔ اس سے مجھے اور کئی لوگوں کو پیسے مل رہے ہیں۔ یہ اضافی آمدن ہمارے لیے بہت اہم ہے۔‘
دنیا میں ’کاربن کی تجارت‘ کیسے ہوتی ہے؟
وفاقی وزارت ماحولیات میں جنگلات کے سابق انسپیکٹر جنرل سید محمود ناصر بتاتے ہیں. کہ کاربن ٹریڈنگ منصوبے سے مراد یہ ہے. کہ ہم ’اپنے ملک میں درخت اور جنگل لگائیں، ان کی حفاظت کریں اور اس سے ڈالر کمائیں۔ جتنے جنگل اور درخت لگا کر ماحول کو بہتر کرنے کی کوشش کریں گے، اتنے ہی پیسے ملیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا آغاز سب سے پہلے اقوام متحدہ نے 2005 میں کیا تھا۔ اس کا مقصد ’انسانی اقدامات کے باعث بڑھنے والے عالمی درجہ حرارت کو کم کرنا اور فضا میں آلودگی یا کاربن کو کم کرنا ہے۔‘
اقوام متحدہ نے ماحولیاتی تبدیلی اور بڑھتے کاربن فٹ پرنٹس کو انسانیت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے. اور اس ضمن میں ضروری اقدامات کو عالمی قانون کا درجہ دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے تحت بڑے صنعتی ممالک اور عالمی کمپنیوں کو مختلف طریقوں سے پابند کیا گیا. کہ وہ ماحول دوست اقدامات کریں۔ اس میں ایک طریقہ کاربن ٹریڈنگ تھا، یعنی فضا میں کاربن کو کم کر کے ماحول کو بہتر بنانا اور کاربن مارکیٹ قائم کرنا۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہ کاربن صنعتی ممالک زیادہ پیدا کرتے ہیں۔ ’بڑے ممالک اور کمپنیوں کے لیے اقدامات کرنا بہت مشکل اور مہنگا تھا. اس لیے انھوں نے کاربن ٹریڈنگ کو بہتر سمجھا۔‘