آسٹریلیا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے. جس نے میڈیکل سٹورز کے علاوہ ای سگریٹس جنہیں ویپ بھی کہا جاتا ہے، کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔
نئے قوانین کے تحت یکم جولائی سے ویپ صرف سادہ رنگوں اور پیکٹ میں فروخت کیے جا سکیں گے۔ وہ مقامی طور پر تیار نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی ان کا اشتہار دیا جا سکتا ہے۔
قانون کے تحت فارمیسی کے علاوہ کسی بھی جگہ پر ویپ کی فراہمی، تیاری، درآمد، انہیں تجارتی مقاصد کے لیے رکھنے یا فروخت کرنے پر مؤثر انداز میں پابندی ہو گی۔ اس پابندی کا اطلاق ویپنگ ڈیوائسز پر بھی ہو گا جن میں نکوٹین نہیں ہوتی۔
آسٹریلوی شہریوں کو اب ویپ خریدنے کے لیے. نسخہ دکھانا ہوگا. اس کے باوجود وہ زیادہ تر ذائقوں میں ای سگریٹ نہیں خرید پائیں گے. جو نوجوانوں میں مقبول ہیں۔ مثال کے طور پر ’ببل گم۔‘
آسٹریلوی حکومت نے گذشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا کہ ’طبی بنیاد پر استعمال کی جانے والی ویپنگ مصنوعات کاؤنٹر کی دوسری جانب رکھی جائیں گی۔ کسی پروڈکٹ میں نکوٹین کی مقدار اور وہ کتنی فروخت کی جا سکتی ہے، اس بات کو سختی کے ساتھ سگریٹ کنٹرول کیا جائے گا۔ کسی دوا کی طرح ای سکریٹ کا پیکٹ سادہ ہو گا اور ذائقے تمباکو، منتھول اور منٹ تک محدود ہوں گے۔‘
صحت کو پہنچنے والے نقصانات
’فارماسسٹس تصویری شناخت دیکھیں گے. اور خریدار سے ویپنگ سے صحت کو پہنچنے والے نقصانات پر بات چیت کریں گے۔‘
’ہم غیر قانون تمباکو اور ای سگریٹ کمشنر مقرر کر کے نکوٹین مصنوعات کی غیر قانونی فروخت کے خلاف کوششیں تیز کر رہے ہیں۔‘
نئے قوانین کا مقصد ویپس کو ان کے مطلوبہ مقصد کی طرف واپس لانا ہے. تاکہ لوگوں کو تمباکو نوشی چھوڑنے میں مدد مل سکے۔
وزیر صحت مارک بٹلر نے متنبہ کیا ہے کہ ویپ فروخت کرتے ہوئے پکڑے جانے والے سٹورز یا تمباکو کی دکانوں پر 20 لاکھ آسٹریلوی ڈالر (10 لاکھ 50 ہزار امریکی ڈالر) تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے اور مالکوں کو سات سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
’ایسا کرنے کا بہترین وقت پانچ سال پہلے تھا۔ یہ دوسرا بہترین وقت ہے۔‘
آسٹریلیا ویپس کی بلیک مارکیٹ میں فروخت کو روکنے کے لیے غیر قانونی تمباکو اور ای سگریٹ کمشنر کے نام سے عہدہ تخلیق کرنے کا نئے حکومتی کردار کا ارادہ رکھتا ہے۔ ملک تین سال میں نئے قوانین کی افادیت پر نظر ثانی کرے گا۔
فارماسسٹس کی تنظیم دا فارمیسی گلڈ آف آسٹریلیا نئے قوانین سے خوش دکھائی نہیں دیتی. کیوں کہ ابھی تک تنظیم کے پاس ’قانون کے دائرے میں نہ آنے والے. ایسے مواد جن کی صحت کے لیے. کوئی ثابت شدہ افادیت نہ ہو‘ کی فروخت کے لیے. کوئی رہنما اصول موجود نہیں۔
ویپس
گلڈ نے گذشتہ ہفتے بیان میں کہا: ’جب ہم ویپس کے طویل مدت میں مریض کے تحفظ پر اثرات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے. تو اس صورت میں کوئی فارماسسٹ اچھا فیصلہ فیصلہ کیسے کر سکتا ہے۔؟‘
گذشتہ سال کیے سروے میں آسٹریلیا میں 18 سے 24 سال کی عمر کے پانچ میں سے ایک نوجوان نے کم از کم ایک بار ویپ استعمال کرنے کے بارے میں بتایا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ نئے قوانین کا مقصد ’نوجوان آسٹریلوی شہریوں اور وسیع تر کمیونٹی کو تفریح کی خاطر کی جانے والی ویپنگ کے نقصانات سے بچانا ہے۔‘
بٹلر کا کہنا تھا کہ ’تفریح کے لیے ویپنگ ایک لعنت ہے۔ یہ لوگوں کی صحت کے لیے خطرہ ہے، خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کے لیے۔‘
’ایسی شے جسے علاج کی غرض سے متعارف کروایا گیا. کہ وہ تمباکو نوشی کرنے والوں کو آخر کار اس عادت کو چھوڑنے میں مدد کرے گی. در اصل اسے تمباکو کمپنی بگ ٹوبیکو نے نئی نسل کو نکوٹین کی لت میں مبتلا کرنے کے لیے آلے کے طور پر استعمال کیا۔‘