پاکستان میں دکانوں کو رات آٹھ بجے بند کرنے سے پندرہ سو میگا واٹ بجلی کی بچت ہوگی، تاہم سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ کیا حکومت اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کروا سکے گی؟
پاکستان میں توانائی کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے. کہ وفاقی حکومت کی طرف سے ملک بھر میں دکانوں اور کمرشل ایریاز کو رات 8 بجے بند کرنے سے ملک میں تقریبا پندرہ سو میگا واٹ بجلی کی بچت ہوگی۔ لیکن ان کے خیال میں حکومت کے لیے اس فیصلے کا نفاذ آسان نہیں ہوگا۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر پاکستان. الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو)طاہر بشارت چیمہ کا کہنا تھا کہ شام کے بعد دکانوں اور مارکیٹوں کو بند کرنا کوئی انہونا واقعہ نہیں ہے. دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی رات کو کاروبار نہیں ہوتا۔ ان کے خیال میں اگر حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہوگئی تو شام کے بعد پیک آورز میں بجلی کی روزانہ کھپت میں بارہ سے پندرہ سو میگا واٹ کمی ہو سکے گی۔
طاہر بشارت چیمہ جو کہ دو ہزار سات میں بجلی کے محکمے میں انرجی مینیجمنٹ اینڈ کنزرویشن ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل تھے. انہوں نے اس دور میں دوکانوں اور شاپنگ پلازہ وں کو گرمیوں میں ساڑھے سات بجے. اور سردیوں میں شام چھ بجے بند کروانے کا آئیڈیا متعارف کروایا تھا۔ لیکن ماضی میں حکومتیں متعدد مرتبہ ایسے اعلانات کرنے کے باوجود اس پر پوری طرح عملدرآمد کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
تاجر رہنما
ادھر پاکستان کے چاروں صوبوں میں تاجر رہنماؤں نے اس حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے. حکومت سے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے. انجمن تاجران پاکستان کے مرکزی رہنما نعیم میر نے کہا کہ تاجروں کی مشاورت کے بغیر کیے جانے والے اس فیصلے پر حکومت کبھی عمل درآمد نہیں کروا سکے گی۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت اس سلسلے میں. ایک خصوصی کمیٹی بنا کر تاجروں کا موقف سنے. اور باہمی مشاورت سے کوئی فیصلہ کرے۔
نعیم میر نے کہا کہ تاجر سب سے مہنگی بجلی خریدتے ہیں. لیکن اس کے باوجود تین صوبوں میں روزانہ دس بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر تاجر آٹھ بجے دکانیں بند بھی کر دیں. تو اس بات کی گارنٹی کیا ہے. کہ دیگر اوقات میں حکومت بغیر تعطل کے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنا دے گی. اور اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔