
ایک نئی تحقیق کے مطابق تمام جاندار ایک عجیب سی روشنی خارج کرتے ہیں جو ان کی زندگی سے جڑی ہوتی ہے اور موت کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت طبی تشخیص کے لیے ایک مؤثر نیا ذریعہ بن سکتی ہے۔
درحقیقت، تمام جاندار پیچیدہ حیاتی کیمیائی تجربہ گاہوں کی مانند ہوتے ہیں، جہاں میٹابولزم (زندگی کے لیے ضروری کیمیائی عمل) زندگی کو برقرار رکھنے والے عوامل کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ اس میٹابولزم کا ایک ضمنی نتیجہ انتہائی متحرک آکسیجن پر مبنی مرکبات ہوتے ہیں، جنہیں ری ایکٹو آکسیجن سپیشیز (آر او ایس) کہا جاتا ہے۔
اگر جسم میں آر او ایس کی مقدار حد سے بڑھ جائے. تو وہ آکسیڈیٹو سٹریس .(oxidative stress) یعنی کیمیائی تناؤ پیدا کرتا ہے، جو جسم کے اندر مختلف کیمیائی مادّوں کے درمیان الیکٹرانوں کی منتقلی کا سبب بنتا ہے۔ الیکٹرانوں کی منتقلی ہی. اس روشنی کو جنم دیتی ہے۔
کینیڈا کی یونیورسٹی آف کیلگری کے محققین کی. اس تحقیق کو دی جرنل آف فزیکل کیمسٹری لیٹرز میں شائع کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے چوہوں میں پائی جانے والی اس روشنی، جسے الٹرا ویک فوٹون ایمیشن (UPE) یا بائیو فوٹون ایمیشن کہا جاتا ہے، کا تفصیل سے مشاہدہ کیا۔
تحقیق میں معلوم ہوا کہ زندہ چوہے مرے ہوئے چوہوں کے مقابلے. میں کہیں زیادہ اور شدید روشنی خارج کرتے ہیں۔
اسی طرح پودوں میں بھی یہ روشنی درجہ حرارت. میں تبدیلی، زخم لگنے اور کیمیائی مادّوں کے اثرات سے متاثر ہوتی ہے۔
تحقیق
گذشتہ تحقیق سے یہ پتہ چلا تھا کہ آر او ایس اس روشنی کے بنیادی محرک ہو سکتے ہیں۔ یہ روشنی انتہائی کم شدت کی ہوتی ہے اور انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتی، جس کی ویو لینتھ 200 سے ایک ہزار نینو میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔
یہ روشنی یک خلوی جانداروں، بیکٹیریا، پودوں، جانوروں اور حتیٰ کہ انسانوں میں بھی. دیکھی جا چکی ہے۔
لیکن اب تک یہ واضح نہیں تھا کہ موت اور دباؤ کا اس روشنی پر کیا اثر پڑتا ہے۔
تازہ تحقیق میں زندہ. اور مردہ جانوروں میں اس روشنی کا موازنہ کیا گیا. اور ساتھ ہی پودوں پر درجہ حرارت، زخم اور کیمیائی علاج کے اثرات کا مشاہدہ کیا گیا۔