ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ بینک کے سسٹم میں کسی خامی کے باعث صارفین کی بجائے خود بینک کو نقصان ہو رہا ہو۔
ایسا حال ہی میں ایتھوپیا میں ہوا جہاں اب ملک کا سب سے بڑا کمرشل بینک ان بڑی رقوم کی واپسی کے لیے تگ و دو کر رہا ہے. جو صارفین نے اپنے اکاؤنٹ میں نہ ہونے کے باوجود نکلوا لیے۔
سنیچر کو ہوا کچھ یوں کہ صارفین کو پتا چلا کہ وہ کمرشل بینک آف ایتھوپیا (سی بی ای) میں اپنے بینک بیلنس سے زیادہ رقم نکلوا سکتے ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سسٹم کی اس خامی کی وجہ سے صارفین نے چار کروڑ ڈالر نکلوا لیے. یا دوسرے بینکوں میں منتقل کر دیے۔
رقم کی منتقلی منجمد کرنے میں ادارے کو کئی گھنٹے لگ گئے۔
ریاستی ملکیت والے بینک سی بی ای کے صدر ایبی سانو نے پیر کو صحافیوں کو بتایا. کہ اکثر رقوم طلبہ نے نکلوائیں۔
سسٹم میں خامی کی خبریں میسجنگ ایپس اور فون کالز کے ذریعے یونیورسٹیوں میں پھیل گئی تھی۔
اے ٹی ایم
کیمپس کے اے ٹی ایم پر لمبی قطاریں لگ گئیں۔ مغربی ایتھوپیا کے ایک طالبعلم نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگ پیسے نکلواتے رہے جب تک پولیس اہلکار موقع پر نہیں پہنچے۔ انھوں نے کیمپس پر لوگوں کو اے ٹی ایم جانے سے روک دیا۔
جیما یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے طالبعلم نے کہا کہ ’مجھے یقین نہیں آ رہا تھا. کہ یہ سچ ہے۔‘
ان کے دوستوں نے انھیں رات 10 بجے بتایا. کہ آپ اے ٹی ایم سے بڑی رقوم نکلوا سکتے ہیں. یا یہ رقم بینک کی ایپ کے ذریعے دوسرے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کر سکتے ہیں۔
جنوبی ایتھوپیا میں دیلا یونیورسٹی کے طالبعلم کا کہنا ہے کہ ان کے کئی دوستوں نے رات 12 بجے سے دو بجے کے بیچ سی بی ای سے رقوم نکلوائیں۔
سی بی ای میں تین کروڑ اسی لاکھ لوگوں کے کھاتے ہیں۔ اس بینک کو 82 سال قبل قائم کیا گیا تھا۔
ایتھوپیا میں مالیاتی سیکٹر کے نگران سینٹرل بینک نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ سسٹم میں مرمت اور جائزے کے دوران ’ایک خامی‘ پیدا ہوئی تھی۔
رقم کی منتقلی
تاہم اس بیان میں اس بات پر توجہ دی گئی کہ سی بی ای کی جانب سے رقم کی منتقلی منجمد ہونے سے سروس کی معطلی ہوئی ہے۔ اس میں صارفین کی جانب سے پیسے نکلوائے جانے کا ذکر نہیں تھا۔
سانو نے یہ نہیں بتایا کہ سنیچر کے واقعے میں مجموعی طور پر کتنے پیسے نکلوائے گئے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ بینک کے کل اثاثوں کے مقابلے کم نقصان ہوا ہے۔
ان کے بقول بینک پر کوئی سائبر حملہ نہیں ہوا. اور صارفین کو بے فکر رہنا چاہیے کیونکہ ان کے پرسنل اکاؤنٹ محفوظ رہیں گے۔
کم از کم تین یونیورسٹیوں نے بیانات میں طلبہ کو تجویز دی ہے. کہ وہ تمام پیسے سی بی ای کو واپس کر دیں جو کہ ان کے نہیں۔
سانو نے کہا کہ جو کوئی بھی اپنی خود سے پیسے واپس کر دے گا. اس کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
یہ غیر واضح ہے کہ پیسوں کی واپسی کے لیے بینک کے اقدامات اب تک کتنے کارگر ثابت ہوئے ہیں۔
جیما یونیورسٹی کے طالبعلم نے پیر کو کہا کہ انھوں نے اس حوالے سے نہیں سنا کہ کسی نے بینک کو پیسے واپس کر دیے ہوں۔ تاہم انھوں ںے کیمپس کی حدود میں پولیس کی گاڑیاں دیکھی ہیں۔
دیلا یونیورسٹی کے اہلکار کے مطابق کیمپس پر موجود بینک کے ملازمین ان طلبہ سے پیسے وصول کر رہے ہیں جو رضاکارانہ طور پر انھیں لوٹانے آتے ہیں۔
[email protected]
[email protected]