بلوچستان: نوزائیدہ بچیوں کو لاوارث چھوڑنے کا تشویشناک رجحان

0
0

پاکستان کے صوبے بلوچستان میں نوزائیدہ بچیوں کو پیدائش کے بعد لاوارث چھوڑنے کا ایک تشویشناک رجحان دیکھنے میں آرہا ہے ۔ ماہرین کے خیال میں حکومتی سطح پر اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات ضروری ہیں۔

غیرسرکاری اعدادوشمار کےمطابق گزشتہ 8 ماہ کے دوران صوبے بلوچستان کے مختلف  ہسپتالوں اور زچگی مراکز میں35 سے زیادہ نوزائیدہ بچیا ں لاوارث پائی گئیں کیونکہ ان کے والدین کی شناخت زچگی سے  قبل  درج کرائی گئیں معلومات سے ممکن نہیں ہوئی ۔ زرائع کے مطابق  رواں سال لاوارث نوزائیدہ بچیوں کے اکثر کیسز ، کوئٹہ ، لورالائی ،تربت ، پشین،  دالبندین اور بعض دیگر  ملحقہ علاقوں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

بچیوں کو لاوارث چھوڑنے والی بعض خواتین.  کی شناخت افغان مہاجرین کے طور پر کی گئی ہے ۔ ایسی متعدد خواتین نے ہسپتالوں اور زچگی مراکز. میں درست کوائف  بھی درج  نہیں کرائے تھے ۔ کوئٹہ کے ایک  مقامی ہسپتال میں تعینات ماہر امراض نسواں ڈاکٹر رابعیہ احمد کو بھی چند یوم قبل ہسپتال کے زچگی وارڈ میں ایک ایسی ہی لاوارث بچی ملی تھی جس کی ماں  نارمل ڈیلیوری کے بعد وہاں  سے  بغیر کچھ بتائے چلی گئی تھی۔

رابعیہ کہتی ہیں کہ دس یوم قبل ہسپتال کے گائنی وارڈ میں ملنے والی 8 ماہ کی لاوارث  بچی کو انہوں نے انکیوبیٹر  میں ڈال دیا تھا۔

حقیقی والدین کا انتظار

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ’’دیکھیں اس  بچی کی ماں نے ڈیلیوری  سے قبل جو معلومات ہسپتال کے زچہ بچہ وارڈ میں درج کرائی تھیں. وہ  درست نہیں تھیں ۔ ہم   نےتین یوم  تک بچی کے حقیقی والدین کا انتظار کیا. لیکن ان کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ۔ ہسپتال میں جس خاتون کے ہاں. اس بچی کی ولادت ہوئی تھی وہ افغان مہاجر بتائی گئی تھی۔ ‘‘

ڈاکٹر رابعیہ کا کہنا تھا. کہ  بچیوں کو لاوارث چھوڑنے والی اکثر حاملہ خواتین جب  زچگی وارڈز جاتی ہیں تو وہ انتظامیہ کو درست معلومات فراہم نہیں کرتیں ۔

انہو ں نے مزید کہا، ’’ ہمارے پاس اکثر اوقات اوپی ڈیز میں جب حاملہ خواتین چیک اپ کے لیے آتی ہیں تو ان کا  یہ اسرار ہوتا ہے. کہ بچے کی جنس انہیں بتائی جائے اگر لڑکا. ہوتو ہم معلومات   فراہم کردیتے ہیں. لیکن بچی کی صورت میں اکثر ڈاکٹرز کی جانب سے معلومات فراہم  نہیں کی جاتیں۔ بعض حاملہ خواتین بچوں کی جنس معلوم ہونے. کے بعد  گھریلو حالات. کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتی ہیں. جس سے ان کی ڈیلیوری کا عمل بھی شدید متاثر ہوتا ہے ۔‘‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.