برطانیہ نے حکومتِ پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ جس کے تحت اُن پاکستانی باشندوں کو ملک سے واپس بھیجا جائے گا جن کے پاس برطانیہ میں رہنے کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔ ان میں سزا یافتہ مجرم، وہ افراد جن کی پناہ کی درخواست رد ہو چکی ہو اور جنھوں نے امیگریشن کے قواعد کی خلاف ورزی کی ہو، شامل ہیں۔
برطانيہ کی وزارتِ داخلہ کی ویب سائٹ کے مطابق ’وزیرِ داخلہ پریتی پٹیل نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت غیر ملکی مجرموں اور امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو برطانیہ سے پاکستان واپس بھیجا جائے گا۔‘
یہ ’برطانيہ کی عوام کے لیے امیگریشن کے نئے منصوبے‘ کے تحت 15 ماہ میں مجرموں کی واپسی ۔کا پانچواں معاہدہ ہے جس پر برطانوی وزیرِ داخلہ نے دستخط کیے ہیں۔
17 اگست کو پریتی پٹیل نے پاکستان کے سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر معظم احمد خان سے ملاقات کی اور ایک تقریب کے دوران معاہدے پر دستخط کیے۔
برطانيہ کی وزیرِ داخلہ پریتی پٹیل نے کہا: ’مجھے خطرناک غیر ملکی مجرموں اور امیگریشن کے مجرموں کو واپس بھیجنے پر کوئی افسوس نہیں ہے، ایسے افراد جن کے پاس برطانیہ میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ برطانوی عوام کافی دیکھ چکی ہے کہ لوگ ہمارے قوانین کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اور سسٹم کو گیم (استعمال) کر رہے ہیں تاکہ ہم انھیں ہٹا نہ سکیں۔‘
برطانيہ
انھوں نے کہا کہ ’یہ معاہدہ، جس پر مجھے اپنے پاکستانی دوستوں کے ساتھ دستخط کرنے پر فخر ہے، ظاہر کرتا ہے کہ امیگریشن کے نئے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارا نیا بارڈرز ایکٹ مزید آگے بڑھے گا برطانيہ۔ کی اور آخری لمحات کے دعوؤں اور اپیلوں کے چکر کو ختم کرنے میں مدد دے گا، جو (انھیں) ہٹانے میں تاخیر کر سکتے ہیں۔‘
انگلینڈ اور ویلز کی جیلوں میں غیر۔ ملکی مجرموں کی ساتویں بڑی تعداد پاکستانی شہریوں کی ہے۔ جو کہ غیر ملکی قومی۔ مجرموں کی کل آبادی کا تقریباً تین فیصد ہیں۔
وزارتِ داخلہ کی ویب سائٹ کے مطابق یہ معاہدہ غیر برطانيہ ۔کی قانونی نقل مکانی کے مسئلے اور اس سے دونوں ممالک کو لاحق اہم خطرات سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے جاری عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔
جنوری 2019 سے دسمبر 2021 تک برطانیہ نے عالمی سطح پر ۔10,741 غیر ملکی مجرموں کو اپنے وطن سے واپس بھیجا ہے۔