ممبئی ہائی کورٹ نے ایک نوعمر بچے کے والد کی اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے جس میں انھوں نے اپنے بیٹے کی ولدیت پر شک کرتے ہوئے اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی درخواست کی تھی۔
عدالت عالیہ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ بچوں کو یہ حق ہے۔ کہ کسی عدالت میں ان کی پیدائش سے متعلق۔ بلاجواز سوال نہ اٹھایا جائے ۔
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب چند برس قبل والد سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ بچے کی سکول فیس اور دوسرے خرچوں کے لیے پانچ ہزار روپیہ ماہانہ ادا کریں۔ بچے کے ماں باپ طلاق لے چکے ہیں اور بچہ ماں کے پاس رہتا ہے۔ والد نے یہ مطالبہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ وہ بچے کا بائیولیجکل بیٹا نہیں ہے۔ یہ معاملہ عدالت میں پہنچا اور ایک جوڈیشیل مجسٹریٹ نے یہ حکم دیا کہ بچے کا ناگپور کی ایک لیباریٹری میں ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے تاکہ اس کی ولدیت کی تصدیق ہو سکے۔
حکم کالعدم قرار
لیکن دو برس قبل خطے کی سیشن عدالت نے۔ اس حکم کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور اپنے فیصلے میں کہا تھا۔ کہ بچے کو اپنی ولدیت ثابت کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ بچے کے باپ نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
52 سالہ درخواست گزار۔ اور بچے کی ماں کی ملاقات ایک فرم میں ملازمت۔ کے دوران ہوئی تھی اور دونوں نے اپریل 2006 میں شادی کر لی تھی۔ ایک سال بعد 2007 میں ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ۔لیکن کچھ عرصے بعد دونوں میں طلاق ہوگئی۔
ہائی کورٹ کے جج جسٹس سنپ نے باپ کی بچے کا ڈی این کرانے کی درخواست کو مسترد کرتے۔ ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’اس طرح کے معاملات میں بچے ۔کے مفاد اور اس طرح کے ٹیسٹ سے بچے کے مستقبل پر پڑنے والے ممکنہ مضر اثرات کو ہمیشہ ملحوظ نظر رکھا جانا چاہیے۔‘
جسٹس سنپ نے مزید کہا کہ بچے کو اپنی پیدائش سے پہلے کے حالات پر نہ کوئی اختیار تھا نہ اس میں اس کا کوئی کردار ہے۔
’ان حالات میں اگر بچے کی ولدیت کے تعین کے لیے ڈی این ٹسٹ کیا جائے۔ اور اگر ٹیسٹ کے نتیجے سے یہ معلوم ہو کہ اس کا باپ کوئی اور ہے تو اس ٹیسٹ کا اس بچے کے ذہن پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اور اس کی زندگی بری طرح متاثر ہو گی۔ اس کے سامنے یہ بھی ایک مسئلہ ہوگا۔ کہ وہ اپنے حقیقحی باپ کو تلاش کرے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس نوعیت کے معاملات میں انتہائی شاذ ونادر قسم کے معاملے میں ڈی این اے ٹیسٹ کی اجازت دی جانی چاہیے۔
عدالتی فيصلہ
گزشتہ مہینے سپریم کورٹ نے بھی بچے کے ڈی این اے ٹیسٹ کے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا۔ کہ ازدواجی اختلافات کے معاملوں میں نابالغ بچوں۔ کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کا حکم صرف شاذ ونادر معاملات میں ہی دیا جانا چاہیے
’صرف اس بنیاد پر کہ والدین میں سے کسی ایک نے بچے کی ولدیت کے بارے میں سوال اٹھائے ہیں عدالت کو اس تنازع کے حل کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ یا اس طرح کا کوئی اور ٹیسٹ کرانے کا حکم نہیں دینا چا ہئیے۔ اس حالت میں عدالت کو دونوں فریقوں کو یہ ہدایت کرنی چاہیے۔ کہ وہ حقیقی ولدیت کو ثابت کرنے۔ یا اسے غلط ثابت کرنے کے لیے ثبوت پیش کریں ۔ اگر ان ثبوتوں کی بنیاد پر عدالت اس تنازعہ کو حل نہیں کر پاتی اور یہ معاملہ ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا۔ تو پھر وہ ٹیسٹ کی اجازت دے سکتی ہے۔‘