انڈیا میں رقص و سرور کی پارٹیوں میں سانپ کے زہر کو بطور نشہ استعمال کرنے کا معاملہ کیا ہے؟

انڈیا کے متنازع یوٹیوبر اور گلوکار ایلویش یادیو پر ’ریو‘ پارٹیوں کے لیے سانپ کا زہر فراہم کرنے کا الزام ہے. اور رواں ماہ 3 نومبر کو ایلویش سمیت چھ ملزمان کے خلاف ریو پارٹیوں میں سانپ کا زہر فراہم کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ مقدمہ رکن پارلیمنٹ مینکا گاندھی کی تنظیم کی شکایت پر درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے. کہ ایلویش یادیو اپنے گینگ کے دیگر ارکان کے ساتھ نوئیڈا کے ایک فارم ہاؤس میں سانپ کے زہر اور زندہ سانپوں کے ساتھ ویڈیوز بتاتا ہے، اس فارم ہاؤس میں ریو پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے. جہاں سانپ کے زہر کو بطور منشیات استعمال کرنے کے علاوہ دیگر منشیات کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

غیرملکی خواتین

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے. کہ ان ریو پارٹیوں میں غیرملکی خواتین کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ ریو پارٹیز کو انڈیا میں عموماً خفیہ طور پر منظم کیا جاتا ہے۔ ایسی پارٹیز میں منشیات، شراب، موسیقی، رقص اور بعض اوقات سیکس جیسے عوامل بھی شامل ہوتے ہیں۔

سانپ کا زہر
،تصویر کا کیپشنیوٹیوبر ایلویش یادیو پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ پارٹیوں میں سانپ کے زہر کو بطور منشیات استعمال کرواتے ہیں

یہ ایف آئی آر درج کروانے والی مینکا گاندھی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کئی دنوں سے ایلویش یادیو پر نظر رکھے ہوئے تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ’کوبرا کا زہر نکالنے پر سانپ کی ہلاکت ہو جاتی ہے۔ ملک میں کوبرا سانپ پہلے ہی بہت کم ہیں۔ انھیں پکڑنا اور منشیات کے طور پر ان کے زہر کا استعمال کرنا جرم ہے۔‘

سانپ کے زہر

انھوں نے کہا کہ سانپ کے زہر کا بطور نشہ استعمال جسم کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔

اس رپورٹ میں ہم سانپ کے زہر کے دواؤں میں استعمال اور دیگر پہلوؤں کے بارے میں تفصیل سے جاننے کی کوشش کریں گے۔

چین، روس اور دیگر مغربی ممالک میں کئی برسوں سے سانپ کے زہر کو بطور منشیات استعمال کیا جا رہا ہے۔ انڈیا میں بھی ریو پارٹیوں میں سانپ کے زہر کو بطور منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب سانپ کے کاٹنے سے ہونے والی اموات میں بھی انڈیا سرفہرست ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ سانپ کا کاٹا ’دیہی اور غریب علاقوں‘ کے لوگوں کا مسئلہ ہے۔

منشیات کے عادی افراد سانپ کا زہر کیوں استعمال کرتے ہیں؟

سانپ زہر

انڈیا کے زہریلے سانپوں کی مغربی ممالک چین، روس اور فرانس سے بھی بہت طلب ہے۔ بیرونی ممالک میں بہت سے لوگ شوق کے طور پر سانپ پالتے ہیں۔

محکمہ ایکسائز کی جانب سے وقتاً فوقتاً ہوائی جہازوں کے ذریعے سانپوں کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے. کہ ایسے سانپ نیپال اور بنگلہ دیش میں زمینی رستوں سے بھی سمگل کیے جاتے ہیں. اور ماضی میں اس نوعیت کی سمگلنگ کرنے والے کافی گینگ بھی بے نقاب ہو چکے ہیں۔

انڈیا میں ریو پارٹیوں یا نیو ایئر پارٹیوں میں سانپ کے زہر کا بطور نشہ استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

ابھی چند روز قبل گجرات کے جنگلات سے سانپوں کو ممبئی جیسے شہروں میں سمگل کرنے والے گینگ کا پتا چلایا گیا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق مورفین اور افیون کے عادی افراد پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب انھیں یہ سخت اور تیز نشے بھی ہلکے محسوس ہونے لگتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ دیگر خطرناک مواد کا بطور منشیات استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ایسا ہی ایک متبادل اور تیز نشہ سانپ کا زہر ہے۔

کچھ لوگ سانپوں کو منشیات کے لیے پارٹیوں میں رکھتے ہیں اور ان کے کاٹنے سے نشہ آور سکون حاصل کرنے کے لیے ان پر تشدد کرتے ہیں۔

’زہر صرف زہر کو مارتا ہے‘

venom

سانپوں کی مختلف اقسام میں مختلف قسم کے زہر ہوتے ہیں۔ ایک ہی نسل کے مختلف سانپوں میں زہر کی مقدار ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ سانپ کی عمر، جنس اور ماحول اس بات پر اثر انداز ہوتا ہے کہ وہ کتنا زہریلا ہے۔

اس کی وجہ سے سانپ کے زہر کے اثرات میں بھی فرق ہوتا ہے۔ سانپ کے زہر کے معاملے میں یہ کہاوت کہ ’زہر کو صرف زہر کاٹتا ہے‘ سچ ثابت ہوتا ہے۔

سانپ کے زہر سے نکلنے والے کیمیکل بہت سی بیماریوں کے علاج میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں. اور زہر کے استعمال والی بہت سی دوائیں آج بھی استعمال ہوتی ہیں۔

سانپ کے زہر کے لیے تریاق تیار کیے جا رہے ہیں. لیکن اس ضمن میں ابھی بھی تحقیق کی جا رہی ہے۔ زہر کو سرنج یا سوئی سے نکالا جاتا ہے اور ’اینٹی وینم‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

زہر کو برداشت

تاہم انسانوں یا حیوانوں میں علاج کی غرض سے اس کا استعمال صرف اتنی مقدار میں ہوتا ہے. جس کا فائدہ ہو نہ کہ نقصان۔ ایسے کرنے سے اُن کے جسم میں زہر کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ پھر ان کے خون سے ’اینٹی باڈیز‘ نکالی جاتی ہیں. اور اس کے بعد زہر کی ویکسین بنانے کے لیے اسے صاف کیا جاتا ہے۔

زہریلے ’پٹ وائپر‘ سانپ کے زہر سے حاصل ہونے والے ’اینجیوٹینسن اینزائم‘ نے انسانی تاریخ میں کسی بھی دوسرے جانور سے زیادہ انسانی جانیں بچائی ہیں۔

سانپ کا زہر جوڑوں کے درد (گُٹھیا)، جسم کے درد سے نجات، اور سوزش کی دواؤں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق سانپ کے زہر سے درد کش ادویات بنائی جا سکتی ہے. اور اس کے کوئی مضر اثرات نہیں ہوتے تاہم اس ضمن میں تحقیق ابھی جاری ہے۔

ایک لیٹر سانپ کے زہر کی قیمت کروڑوں روپے تک ہو سکتی ہے۔ تریاق تیار کرنے والی بعض ادویہ ساز کمپنیاں اسے قومی یا بین الاقوامی بلیک مارکیٹ سے غیر قانونی طور پر بھی حاصل کرتی ہیں۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.