’اشرافیہ کا پانی‘: سینکڑوں ڈالر میں بِکنے والی پانی کی بوتل، آخر اس میں ایسا خاص کیا ہے؟

کیا آپ نے ایسے ریستورانوں کے بارے میں سنا ہے جہاں عمدہ شراب کے بجائے اشرافیہ کو پانی پیش کیا جاتا ہے، یا ایسی شادیوں کے بارے میں جہاں نوبیاہتے جوڑے کی خوشی کے لیے شیمپین سے نہیں بلکہ پُرتعیش پانی کے ساتھ ’چیئرز‘ کرتے ہیں۔

یہ پانی عام منرل یا نل کے پانی سے کہیں زیادہ فراہم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، یہ آپ کو سینکڑوں ڈالر واپس بھی دے سکتا ہے۔

اسے کھانے کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے، سٹیک سے مچھلی تک، اسی طرح جیسے شراب پیش کی جاتی ہے۔

پریمیم واٹر یا ریفائنڈ واٹر، قدرتی ذرائع سے آتا ہے. جیسے آتش فشاں چٹان، گلیشیئرز، یا دھند کی بوندوں سے۔ کبھی کبھی یہ براہ راست بادلوں سے نکالا جاتا ہے۔

اس طرح کے ہر پانی میں اس ذریعے کی خصوصیات ہوتی ہیں. جہاں سے یہ نکلتا ہے. اور عام بوتل کے پانی کے برعکس، اسے کسی ٹریٹمنٹ سے نہیں گزارا جاتا۔

آج دنیا میں سینکڑوں اعلیٰ معیار کے واٹر برانڈز ہیں. اور یہاں تک کہ ماہرین بھی ہیں. جو آپ کو ان کے بارے میں مشورے دے سکتے ہیں۔

پانی

کیا اس پانی کا کوئی ذائقہ ہے؟

شراب چکھنے کی تقاریب ’وائن ٹیسٹنگ‘ کی طرح اس پانی کو چکھنے کے ماہرین بھی ہیں جو ہر پروڈکٹ کو اس کے معدنی مواد، ذائقے اور منھ کے احساس کی بنیاد پر جانچتے ہیں۔

ملن پٹیل پانی کے کلنسلٹنٹ ہیں. اور لندن میں ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پانی صرف پانی ہی نہیں ہے۔ ہماری دنیا کا ہر پانی مختلف ہے اور اس کا الگ ذائقہ ہے۔‘

وہ نل اور بوتل کے ساتھ پانی کی تلاش میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے. پانی چکھنے کی میزبانی کرتے ہیں۔

پٹیل نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ لوگوں خصوصاً نوجوان نسل کو پانی کی مختلف اقسام اور ان کے ذائقے کے بارے میں آگاہی دینے کے مشن پر ہیں۔

’یاد رکھیں، سکول میں ہم نے قدرتی ہائیڈرولوجیکل سائیکل یعنی بخارات، کنڈنسیشن اور بارش کا مطالعہ کیا۔ تاہم، ہم نے ایک چیز نہیں پڑھی کہ پانی میں دوبارہ معدنیات کیسے شامل ہوتے ہیں۔‘

پٹیل کہتے ہیں ’لہٰذا جب بارش زمین پر پڑتی ہے، تو یہ پانی کو جذب کر لیتی ہے، اور پھر وہ پانی مختلف پتھروں اور مٹیوں سے گزرتا ہے، جس میں کیلشیئم، میگنیشیئم، پوٹاشیئم، سیلیکا اور دیگر معدنیات بھر جاتے ہیں۔ اسی سے پانی کو معدنی ذائقہ ملتا ہے۔‘

پانی
،اشرافیہ کا پانی ہوائی میں آتش فشاں چٹان، ناروے میں برف کے پگھلنے یا تسمانیہ میں صبح کی دھند کی بوندوں سے لیا گیا

آئس برگ

آئس برگ یا بارش جیسے ذرائع سے حاصل ہونے والا پانی جو قدرتی طور پر زمین سے نہیں گزرتا، اس میں چشموں اور کنوؤں کے پانی کے مقابلے. میں عام طور پر تحلیل شدہ ٹھوس اجزا کی سطح کم ہوتی ہے۔

پٹیل کے پاس دنیا بھر کے مختلف قسم کے پانیوں کا ذخیرہ ہے۔ نلکے کے پانی سے لے کر اعلیٰ معیار کے پانی تک جس کی قیمت ایک بوتل 300 ڈالر سے زیادہ کی ہے۔ اس کے سیشنز میں لوگوں نے اسے چکھنے کے بعد، وہ ہر پانی کے منفرد ذائقے کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پٹیل کہتے ہیں، ’ہم لوگوں کو اس قابل بنا رہے ہیں کہ وہ پانی کو ایک بے ذائقہ مائع کے علاوہ کسی اور چیز کے طور پر دیکھیں۔ جب آپ پانی کو تلاش کرنا اور اسے شعوری طور پر پینا شروع کر دیتے ہیں، تو آپ حیران ہوں گے کہ آپ اسے بیان کرنے کے لیے کتنے الفاظ استعمال کر سکتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’لوگ اسے کبھی نرم، بھرپور، گدگداتا ہوا، مخملی، کڑوا اور کبھی کبھی ’کھٹا‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ میں اسے ایکوا ٹیسٹنگ کہتا ہوں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں ’اور کوئی یہاں تک کہتا ہے: ’اوہ، یہ مجھے میری جوانی کی یاد دلاتا ہے،‘ ’یہ چھٹی کا دن ہے،‘ یا ’یہ مجھے اپنے دادا دادی کے گھر کی یاد دلاتا ہے۔‘

پانی چکھنے کا مقابلہ

فائن واٹر سوسائٹی ہر سال میٹنگ کرتی ہے جس میں پوری دنیا سے – بھوٹان سے ایکواڈور تک – پانی چکھنے کے بین الاقوامی مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

سالانہ سمٹ میں شرکت کرنے والوں میں سے زیادہ تر خاندانی کاروبار کے نمائندے ہیں. جو دور دراز علاقوں میں پانی پیدا کرتے ہیں۔

فائن واٹر سوسائٹی اور فائن واٹر اکیڈمی. کے شریک بانی ڈاکٹر مائیکل ماشا کہتے ہیں، ’پہلے پہل پانی چکھنے کو ایک مضحکہ خیز خیال سمجھا جاتا تھا۔‘

وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں، ’میں نے یہ کام تقریباً 20 سال پہلے شروع کیا تھا جب مجھے شراب پینا چھوڑنا پڑا۔‘

’جب شراب کو اچانک ہٹا دیا گیا تو میں نے میز کے ارد گرد نظر دوڑائی۔ اچانک ایک اور بوتل تھی. جو میں نے پہلے نہیں دیکھی تھی، پانی کی بوتل۔ میں نے سوچا کہ شاید میں اپنے تجسّس کو نہ صرف شراب بلکہ پانی کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہوں۔‘

конкурс
،2018 میں، ایکواڈور میں فائن واٹرس انٹرنیشنل واٹر چکھنے کا مقابلہ ہوا

ان کا ماننا ہے کہ ’ریفائنڈ پانی نہ صرف پیاس بجھاتا ہے، بلکہ یہ کسی خاص چیز کو دریافت، شیئر اور اس سے لطف اندوز ہونے کا موقع ہے اور آپ بچوں کے ساتھ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ماشا کا کہنا ہے کہ صاف پانی کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے. اور ان کا خیال ہے. کہ اس کی وجہ الکوہل اور کاربونیٹیڈ سافٹ ڈرنکس پینے کی خواہش میں کمی ہے، خاص طور پر نوجوان نسل میں جو صحت مند طرز زندگی کی طرف زیادہ مائل ہیں۔

اسی طرح پانی کو پرانی شراب کی طرح پیکج کر کے فروخت کیا جاسکتا ہے جو اسے مزید پُرکشش بنا سکتا ہے۔

پانی اور کھانا

вода
،پانی کی کچھ اقسام کو بھی کھانے کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے، بالکل شراب کی طرح

سپین یا امریکہ میں کچھ ریستوراں اپنے مینو پر کچھ برتنوں کے ساتھ پانی پیش کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ماشا کہتی ہیں، ’میں فی الحال امریکہ میں ایک تھری سٹار میکلین ریسٹورنٹ کے لیے. پانی کا مینو بنا رہی ہوں۔ ہم خوراک اور ماحول کو مکمل کرنے کے لیے. احتیاط سے منتخب کردہ 12 سے 15 قسم کے پانی متعارف کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘

’آپ کو مچھلی کے ساتھ سٹیک کے مقابلے میں مختلف پانی پیش کیا جائے گا۔ اس میں معدنیات کم ہونی چاہیں تاکہ مچھلی کے ذائقے پر قابو پایا جا سکے۔‘

ڈاکٹر ماشا اشرافیہ کے گھروں اور اپارٹمنٹس کے پراجیکٹس پر بھی کام کر رہی ہیں، جہاں شراب خانوں کے بجائے ’پانی والے کمرے‘ ہوں گے۔

ڈاکٹر ماشا نے نوٹ کیا کہ پینے کا پانی ان ثقافتوں میں بھی مقبول ہے. جو مذہبی وجوہات کی بنا پر شراب سے پرہیز کرتی ہیں، بنیادی طور پر شادیوں میں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مہنگے شیمپین کو بدلنے کے لیے. یہ ایک بہترین متبادل تحفہ بھی ہے۔

لیکن اس رجحان کے کئی ناقدین بھی ہیں۔

’غیر اخلاقی کاروبار‘

колодязь
،اقوام متحدہ کے مطابق 2.2 بلین لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں

دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے اور بہت سے لوگ قدرتی وسائل سے پیسے بنانے کے خیال کو پسند نہیں کرتے۔

اقوام متحدہ کے مطابق 2022 میں دو ارب 20 کروڑ لوگوں کو اب بھی پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے جن میں 703 ملین افراد کو بنیادی پانی کی فراہمی بھی نہیں ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ رجحان محض ایک دھوکہ ہے۔ پانی صرف پانی ہے اور قیمت کے علاوہ نلکے کے پانی، بوتل کے پانی اور نام نہاد ’خالص‘ پانی میں کوئی فرق نہیں ہے۔

کرہ ارض کو نقصان

ماہرین ماحولیات بتاتے ہیں کہ کوئی بھی پیک شدہ پانی کرہ ارض کو نقصان پہنچاتا ہے. کیونکہ بوتلیں آخر کار کوڑے دان یا لینڈ فل میں جاتی ہیں۔

لندن کے گریشم کالج میں ماحولیاتی صحت کی ایمریٹس پروفیسر کیرولین رابرٹس کا خیال ہے. کہ جب لاکھوں لوگ صاف پانی تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں تو پانی کی بوتل پر سینکڑوں ڈالر خرچ کرنا غیر اخلاقی ہے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے. کہا کہ ’یہ اپنی دولت کی تعریف کرنے کے مترادف ہے۔ اگر آپ لوگوں کے ساتھ ڈنر پر جائیں اور کہیں کہ آپ نے انٹارکٹیکا یا ہوائی سے لائی ہوئی پانی کی بوتل کے لیے. کتنا معاوضہ دیا ہے۔ اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ سب پیسے کے بارے میں ہے۔‘

пластик
،اقوام متحدہ کا دعویٰ ہے کہ پلاسٹک کے 2000 ٹرک روزانہ دنیا کے سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں میں ختم ہوتے ہیں

وہ مزید کہتی ہیں. ’اور یہ ماحول کے لیے بھی بُرا ہے۔ پلاسٹک ٹوٹ کر مائیکرو پلاسٹک بن جاتا ہے. اور شیشہ بھاری ہوتا ہے. اور اسے دور دراز علاقوں سے ہزاروں کلومیٹر تک لے جانے سے کاربن کے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

’لہٰذا، یہ صرف پیسے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ اس نام نہاد ’بہتر‘ پانی کی وجہ سے ہونے والے ماحولیاتی نقصان کے بارے میں بھی ہے۔‘

لیکن ڈاکٹر ماشا کا دعویٰ ہے. کہ ریفائنڈ پانی صرف امیروں کے لیے تیار نہیں کیا جاتا، کیونکہ وہاں معیاری خالص پانی ہے جس کی قیمت صرف دو ڈالر ہے۔ وہ قدرتی طور پر خالص پانی اور صاف کیے گئے پانی کے درمیان فرق کی وضاحت کرتا ہے، جس کا ماحول پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

پلاسٹک کی بوتل

’پائیدار نقطہ نظر سے، پلاسٹک کی بوتل میں نل کا ٹریٹڈ پانی ڈالنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ آپ اپنی ایس یو وی کار کو سپر مارکیٹ میں چلاتے ہیں، پلاسٹک کی بوتلیں گھر لاتے ہیں، انھیں پیتے ہیں. اور بوتل کو پھینک دیتے ہیں۔ یہ ناقابل یقین حد تک فضول بات ہے۔‘

صاف کیے گئے بوتل کے پانی کے بجائے، وہ نل کا پانی پینے کا مشورہ دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ پینے کے قابل نل کا پانیواقعی ایک ایسا انعام ہے. جو دنیا میں بہت سے لوگوں کے پاس نہیں۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.