اسلام آباد میں اجتماعی زیادتی کا ایک اور واقعہ ہوا ہے، جس کے بعد کئی حلقوں میں اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ اگر وفاقی دارالحکومت میں خواتین کو تحفظ حاصل نہیں ہے تو پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں کی صورت حال کیا ہوگی۔
تازہ واقعہ شالیمار تھانے کی حدود میں ہوا۔ شالیمار پولیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ واقعہ 18 فروری کو پیش آیا۔ متاثرہ خاتون نے پولیس کو بتایا کہ اسے دو ملزمان نے فون کر کے نوکری کے بہانے شہر کے ایف الیون سیکٹر میں بلایا اور پھر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر ایف ٹین سیکڑ میں چھوڑ دیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملزمان کو تلاش کر رہی ہے، جن کے ناموں کو ایف آئی آر میں درج بھی کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد میں حالیہ ہفتوں میں ہونے والا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں ایک عورت سے دو ملزمان نے زیادتی کی تھی، جس کا نوٹس حکومت اور پارلیمنٹ دونوں نے لیا تھا۔ بعد میں پولیس کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا۔ کہ ایف نائن پارک میں ملوث ملزمان پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
دوسری طرف ایف نائن پارک کے واقعے کے حوالے سے وفاقی وزیر میاں ریاض حسین پیرزادہ کا بیان بھی تنقید کی زد میں ہے۔ جس میں انہوں نے خاندانی تربیت اور بے احتیاطی کو بھی ایسے واقعات کے مؤجب ٹھہرایا ہے۔
عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا احساس
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے۔ کہ اسلام آباد پاکستان کا سب سے زیادہ محفوظ شہر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہاں خواتین کے تحفظ کی صورت حال یہ ہے۔ تو دوسرے شہروں میں صورت حال کیا ہوگی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئر مین اسد بٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اسلام آباد کے چپے چپے پر پولیس کا پہرہ ہے۔ سینکڑوں بلکہ ممکنہ طور پر ہزاروں کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ وہاں سفارت خانے بھی ہیں۔ اس کے باوجود گزشتہ کچھ ہفتوں میں یہ دوسرا دلخراش واقعہ ہے۔ جس سے یقینا خواتین میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا رہا ہے۔‘‘