محققین نے زیر آب موجود ٹونگا کے آتش فشاں کے دہانے کی نقشہ سازی مکمل کر لی ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں رواں سال 15 جنوری کو ایک صدی سے زائد عرصے میں زمین کا سب سے بڑا ماحولیاتی دھماکہ ہوا تھا۔
زیر آب موجود آتش فشاں ہنگا-ٹونگا ہنگا-ہاآپائی کا کیلڈیرا یعنی قوس قزہ نما دہانے کی پیمائش سے پتا چلا ہے کہ اب اس کی بنیاد چار کلومیٹر (2.5 میل) چوڑی ہے اور یہ اب سطح سمندر سے 850 میٹر نیچے لگتی ہے۔
جبکہ قیامت خیز دھماکے سے پہلے اس کی بنیاد تقریباً 150 میٹر کی گہرائی میں تھی۔
جس کا مطلب یہ ہوا کہ آتش فشاں سے نکلنے والے مواد کا حجم کم از کم 6.5 کیوبک کلومیٹر راکھ اور چٹان پر مبنی تھا جو اسے اپنے ساتھ مزید اندر لے گیا۔
نیوزی لینڈ میں یونیورسٹی آف آکلینڈ کے پروفیسر شین کرونن کا کہنا ہے کہ ’اگر ٹونگا کے مرکزی جزیرے کے تمام ٹونگاٹاپو (ٹونگا جزائر) کو سطح سمندر تک کھرچ کر اس کے دہانے میں ڈال دیا جائے تو بھی یہ کیلڈیرا کا صرف دو تہائی حصہ ہی بھر سکے گا۔‘
پروفیسر کرونن نے گذشتہ ڈھائی ماہ اپنے جیولوجیکل سروسز کے محکمے کی ایما پر بحرالکاہل کی سلطنت یعنی ٹونگا کے خطے میں گزارے۔
ان کی رپورٹ گذشتہ روز منگل کو جاری کی گئی ہے اور اس میں آتش فشاں کے پھٹنے کا جائزہ لیا گیا ہے اور مستقبل میں اس کے تعلق سے سفارشات پیش کی گئی ہیں۔
اگرچہ ہنگا-ٹونگا ہنگا-ہاآپائی (ایچ ٹی ایچ ایچ) کے اب کئی سو برسوں تک پھٹنے کا امکان نہیں ہے، لیکن جنوب مغربی بحر الکاہل کے وسیع علاقے میں کم از کم 10 آتش فشاں سی ماؤنٹس (سمندری کے اندر موجود پہاڑ یا زیر آب پہاڑ) ہیں جو آنے والے دنوں میں کبھی بھی ویسا ہی بڑا دھماکہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
نیوزی لینڈ میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار واٹر اینڈ ایٹموسفیرک (این آئی ڈبلیو اے) کی ریسرچ نے پیر کو آتش فشاں کے ارد گرد کے علاقے کا اپنا باتھ میٹری (یعنی گہرائیوں کی پیمائش) کا نقشہ جاری کیا۔
لیکن ایجنسی نے ابھی تک ایچ ٹی ایچ ایچ سے آگے جا کر بات نہیں کہی ہے۔
لہذا پروفیسر کرونن اور ساتھیوں کا ڈیٹا درحقیقت این آئی ڈبلیو اے کے سروے میں ایک سوراخ کو بھر دیتا ہے۔
آتش فشاں کے پھٹنے سے پہلے سنہ 2016 اور 2015 میں دہانے کیلڈیرا کا نقشہ بنایا گیا تھا اب جب اس کا موازنہ موجودہ حالت سے کیا جا رہا ہے تو یہ بڑی تبدیلیوں کو ظاہر کرتا ہے۔
مجموعی طور پر گڑھا پڑنے اور گہرائی میں اضافے کے علاوہ اس کی وجہ سے اندرونی چٹان کی دیواروں سے، خاص طور پر گڑھے کے جنوبی سرے سے بڑے ٹکڑے نکل گئے ہیں۔
اس کے علاوہ ڈھیلے مواد کے مسلسل گرنے کے شواہد موجود ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر، آتش فشاں کا مثلث نما ابھار ساخت کے حساب سے جس طرح پہلے تھا ویسا ہی نظر آ رہا ہے۔
پروفیسر کرونین نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ‘جب اطراف کی دیواریں اندر کی طرف گریں گی تو بالآخر، کیلڈیرا قطر میں تھوڑا بڑا اور تھوڑا چھچھلا ہو جائے گا۔ اس طرح اس میں ہماری موجودہ دلچسپی برقرار رہے گی۔’
انھوں نے مزید کہا: ‘شمال مشرق کی طرف والا حصہ تھوڑا سا پتلا لگتا ہے اور اگر یہ ناکام ہو گیا تو سونامی سے ہاآپائی جزیروں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ لیکن آتش فشاں کی ساخت بظاہر کافی مضبوط نظر آتی ہے۔’
سائنس دانوں کو اس بات کا ایک اچھا سراغ ملنا شروع ہو گیا ہے کہ آتش فشاں کے پھٹنے کی پیشرفت کیسے ہوئی اور اسے اس کے لیے طاقت کہاں سے ملتی ہے۔
15 جنوری کو ہونے والے دھماکے کے مشاہداتی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ آتش فشاں مقامی وقت کے مطابق 17:00 بجے کے بعد آدھے گھنٹے میں سپر چارج ہو گیا۔
اور جیسے ہی کیلڈیرا یعنی آتش فشاں کے قوس قزح نما دہانے میں شگاف پڑا، سمندری پانی گہرائی سے تیزی سے نکلنے والے گرم میگما یا سیال مادے سے ملا۔
پروفیسر کرونن نے کہا کہ ’جب میگما اور پانی کا بڑے پیمانے پر میل ہوا تو حاصل ہوئے تو اس سے زور دار آواز نکلی۔ اس کے بعد ایک دھماکہ ہوا جس کے بعد پانی دوبارہ اندر داخل ہوا اور پھر ایک اور دھماکہ جس کے بعد پانی پھر سے اندر داخل ہوا، یعنی دھماکے کے بعد دھماکہ ایک سلسلہ چل نکلا جیسا کہ انجن چلنے لگا ہو۔‘
پروفیسر کرونن نے دھماکے میں پائروکلاسٹک بہاؤ یعنی آتش فشاں کے پھٹنے کی وجہ سے چٹانوں اڑنے اور بکھرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
اور پھر آسمان کی طرف اچھلنے والی راکھ اور چٹان کے یہ گھنے گھنے بادل آتش فشاں کے اطراف گرتے ہیں سمندر کے فرش پر بھی بیٹھ جاتے ہیں۔
اس کی وجہ سے جو سونامی کی لہریں بنیں اور اٹھیں اس کے سبب ٹونگا جزیرہ نما کے ساحلی خطے غرقاب ہو گئے۔
پروفیسر کرونین ٹونگا جیولوجیکل سروسز ڈیپارٹمنٹ کے عملے کے ساتھ مختلف جزائر پر 80 سے زیادہ مقامات پر گئے، تاکہ آتش فشاں سے ہونے والے سب سے بڑے اور تباہ کن سونامی کے واقعات میں سے ایک کو دستاویز شکل دی جا سکے، جس کی لہریں سمندر سے اوپر اٹھ رہی تھیں:
- مغربی ٹونگاٹاپو پرکانوکوپولو میں 18میٹر (HTHH سے 65 کلومیٹر جنوب میں)
- نوموکیئیکی جزائر میں 20 میٹر بلند(اسی طرح کا فاصلہ لیکن شمال مشرق میں)
- آتش فشاں سے 85 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر جزائر پر دس میٹر
تحقیقات نے ٹونگا کی وزارت برائے زمین اور قدرتی وسائل کو ایک رپورٹ سے آگاہ کیا ہے۔
نشیبی علاقوں میں سیاحت کے لیے ریزورٹس کو دوبارہ تعمیر کرنے کے بجائے اس میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ ‘بحیرہ روم کی طرز’ پر یا ‘پاپ اپ’ کی طرز پر دن میں استعمال ہونے والے ساحل سمندر کے ذخائر اور پارکس تیار کیے جائیں، جس میں اونچی اور زیادہ زمینی جگہوں پر ریزورٹ کے لیے رہائشی انتظامات ہوں۔
پروفیسر کرونن کا کہنا ہے کہ وہاں ‘انھیں آم کی طرح کے بہت زیادہ درخت بھی لگانے چاہییں۔ جب سونامی آتی ہے تو یہ پیڑ گر جاتے ہیں لیکن یہ ایک ایسا لاگ ڈیم بناتے ہیں جو واقعی لہروں کے بہاؤ کی توانائی کو کم کرتے ہیں۔‘
این آئی ڈبلیو اے اپنے برطانیہ کے ایک پارٹنر سی کٹ انٹرنیشنل کے ساتھ، جلد ہی ایک اور کیلڈیرا نقشہ بنائے گا۔ یہ آتش فشاں سے پیدا ہونے والے گڑھے کے کناروں پر بہنے والے تلچھٹ کی نقل و حرکت، اور آتش فشاں کے اندر سے نچلی سطح کے راستے کا اندازہ لگانے میں مفید ہو گا۔