دو سال قبل 16 ستمبر کو جمعے کے روز جب 20 سالہ ایرانی نوجوان خاتون مہسا امینی کو پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد سپرد خاک کیا گیا. تو عوامی غیض و غضب نے ملک گیر احتجاج کی صورت اختیار کر لی. اور ان کے جنازے میں موجود کچھ خواتین نے اپنے سر سے احتجاجاً سکارف اتار لیے، وہاں موجود خواتین نے کرد ملی نغمے بھی گائے. اور حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر خواتین کی جانب سے اپنے سکارف اور حجاب کو نذر آتش کرنے کی تصاویر پوسٹ کرنے کا ایک سلسلہ چل نکلا۔
یہ ایک بدلے ہوئے ایرانی مزاج کا نمونہ تھا. جسے دیکھ کر کسی کو چالیس سال قبل کے ایران کا خیال آ سکتا ہے. جب ایران میں اسلامی انقلاب کی آمد کے بعد تہران کے چوک چوراہوں پر مبینہ مخرب اخلاق اور فحش کتابیں جلائی جا رہی تھیں۔
ان نذر آتش کی جانے والی کتابوں میں بیسویں صدی میں فارسی شعرا کی سب سے بلند آواز فروغ فرخ زاد کی ’جذبات کو برانگیختہ کرنے والی‘ حسن و عشق کی شاعری کی مبینہ ’مخرب اخلاق‘ کتابیں بھی شامل تھیں۔
آپ میں سے بہت سے لوگوں نے اردو کی معروف شاعرہ پروین شاکر کا نام تو ضرور سنا ہو گا. اور شاید آپ کو ان کے ایک دو اشعار یاد بھی ہوں. لیکن ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد سے شاید آپ میں سے بیشتر لوگ واقف نہ ہوں۔
شاعروں کا موازنہ
تاہم اردو دنیا میں ان دونوں شاعروں کا موازنہ کیا جاتا ہے لیکن فروغ کے بارے میں مغربی دنیا جتنا جانتی ہے اور انھیں عالمی ادب میں جو پذیرائی حاصل ہے. وہ پروین شاکر کے حصے میں نہ آ سکی ہے۔
عالمی ادب میں اگر فارسی شاعروں کی قطار میں جلال الدین رومی و حافظ شیرازی و خیام نیشاپوری کا سکہ بولتا ہے وہیں شاعرات میں فروغ فرخزاد کو سب سے نمایاں مقام حاصل ہے۔
یہاں ہم دنیا کی چند مشہور خواتین شاعروں کے بارے میں ’شاعرات عالم‘ کے عنوان کے تحت ایک سیریز میں بات کرنے جا رہے ہیں اور اس کی ابتدا اس ایرانی شاعرہ سے کی جا رہی ہے. جسے برف بہت پسند تھی. اور جس دن ان کے جسد خاکی کو قبر میں اتارا جا رہا تھا. اس وقت ان کی ماں کے مطابق وہاں برف باری ہو رہی تھی۔
شاعرانہ عظمت
ایرانی شاعر بہروز جلالی نے فرخ کی جوانمرگی پر جو مضمون لکھا تھا اس کی اولین سطریں فروغ کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’وہ عظیم تھی، وہ عصر حاضر کی شخصیت تھی، تمام کھلے آفاق سے اس کا واسطہ تھا، وہ آب و گل کی راگنی کو خوب سمجھتی تھی۔‘
صرف 32 سال کی عمر پانے والی فروغ کی شخصیت اس قدر متنوع تھی کہ ان کے ہر ایک پہلو کا احاطہ کرنا مشکل ہے لیکن ان کے اندر انسانی ہمدردی کے جوش مارتے سمندر اور خدمت خلق کا جذبہ اتنا شدید تھا. کہ بعض لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے. کہ اگر انھوں نے ذرا طویل عمر پائی ہوتی. تو وہ ایران کی مدر ٹریزا ہوتیں۔
خیال رہے کہ مدر ٹریسا جدید دنیا میں خدمت خلق کا مترادف سمجھی جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ فروغ فرخ زاد ایک فلم ساز بھی تھیں لیکن اس پر بات کرنے سے پہلے آئیے. ان کی شاعری پر بات کرتے ہیں جو ان کی شہرت دوام کا ذریعہ بنی۔
جنسی جذبات کی بلند لے
دہلی کی معروف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر اور صدر شعبہ اخلاق آہن کا کہنا ہے کہ فروغ فرخزاد جنسی جذبات کو بلند لے میں پیش کرتی ہیں اور انھوں نے جذباتی ناآسودگی کو اس قدر شدت جذبات کے ساتھ بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک وہ فحش نگاری کے زمرے میں آ جاتی ہیں۔
اردو کی معروف شاعرہ پروین شاکر سے ان کا موازنہ کرتے ہوئے. پروفیسر اخلاق آہن کہتے ہیں. کہ ’جن جذبات کا اظہار پروین کے ہاں دھیمی آنچ کے طور پر ملتا ہے. انھی جذبات کا بیان ان کے ہاں شعلہ فشاں ہے۔‘
اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی میں ریجنل ڈائریکٹر اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے عربی زبان میں پی ایچ ڈی کرنے والے مرزا نہال احمد بیگ نے اپنی کتاب ’ڈاٹرز آف دی میوز‘ میں فروغ فرخ زاد، پروین شاکر اور عربی شاعرہ نازک الملائکہ کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔
فروغ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں. کہ ’اپنے ذات کی عکاسی اور ذاتی اظہار میں وہ اس قدر شدید ہیں. کہ وہ شہوت پرستی کی حد میں قدم رکھ دیتی ہیں. اور یہ ان کی شاعری کا نشان امتیاز ہے۔۔۔ ان کی شاعری شدت جذبات اور افسردہ دلی کا ایسا اظہار ہے. جسے ان کے باغیانہ تیور، جدید اور مخصوص زور بیان نے منفرد بنا دیا ہے۔‘
یہاں تک کہ خود پروین شاکر نے فروغ کے نام ایک نظم لکھی ہے. جس کی چند سطریں یہاں پیش کی جاتی ہیں. جو کہ ان کے افکار و نظریات کی عکاسی کرتی ہیں: