خراٹوں کی آواز ناقابل برداشت ہو گئی تھی اور انعم (فرضی نام) سلیپ پاتی تھیں۔ وہ اپنے ساتھ لیٹے اور خراٹے لیتے شوہر کو دھکیلتی، ان کی کروٹ بدلنے کی کوشش کرتیں یا انھیں ہلاتی اور یہ سب کرنے کا مقصد یہ ہوتا کہ ان کے شوہر کے خراٹوں میں وقفہ آئے اور انعم دو گھڑی سو سکیں۔
لیکن یہ سب کچھ بیکار تھا۔
پھر 35 سالہ انعم کے لیے یہ سب کچھ ناقابل برداشت ہو گیا چنانچہ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک کمرے میں نہیں سوئیں گی۔
لندن سے بی بی سی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انعم نے کہا کہ ’میں اپنے کام پر توجہ نہیں دے سکتی تھی، سارا سارا دن تھکی ہوئی رہتی تھی۔ آپ اپنی نیند میں خلل ایک، دو راتوں تک تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن طویل عرصے تک آپ اس چیز کے ساتھ گزارہ نہیں کر سکتے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس نے ہمارے دلوں کو تھوڑا سا توڑا۔ لیکن جب ہمیں احساس ہوا کہ ایک ساتھ ایک کمرے میں نہ سو کر ہمیں سکون مل سکتا ہے تو میں خوش ہو گئی۔‘
انعم اور اُن کے 43 سالہ شوہر تیزی سے بڑھتے ہوئے ایک رجحان کا حصہ ہیں جسے ’سلیپ ڈائیورس‘ (یعنی نیند کی طلاق) کہا جاتا ہے۔
ماہر نفسیات
میک لین ہسپتال کی ماہر نفسیات اور امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی سے منسلک سٹیفنی کولیئر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نیند کی طلاق عام طور پر ایسی چیز ہوتی ہے جو شروع میں عارضی طور پر کی جاتی ہے۔ لیکن پھر جوڑوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جب وہ اکیلے ہوتے ہیں تو حقیقت میں وہ بہتر سوتے ہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’عام طور پر ان وجوہات کا تعلق صحت سے ہوتا ہے۔ وہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کوئی شخص خراٹے لیتا ہے، سوتے ہوئے ٹانگیں بے چین رکھتا ہے، نیند میں چہل قدمی کرتا ہے یا طبی وجوہات کی بنا پر بہت زیادہ باتھ روم جاتا ہے۔ یا وہ رات میں کمرے میں حرکت کرتا ہے، زیادہ کروٹیں لیتا ہے اور اس سے اس کا ساتھی پریشان ہوتا ہے۔‘
90 کی دہائی میں پیدا ہونے والوں میں بڑھتا رجحان
گذشتہ سال کے آخر میں معروف امریکی اداکارہ کیمرون ڈیاز نے ’لِپ سِٹک آن دی رم‘ نامی پوڈ کاسٹ کو بتایا کہ وہ اور اُن کے شوہر ایک کمرے میں نہیں سوتے۔
انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’اور مجھے لگتا ہے کہ ہمیں الگ الگ کمروں میں سونے کو عام بات بنانا چاہیے۔‘
اگرچہ اس انکشاف کے بعد سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر ہزاروں افراد نے ردعمل دیا اور میڈیا میں مختلف مضامین لکھے گئے مگر ہالی وڈ سٹار کا معاملہ کوئی واحد معاملہ نہیں ہے۔
امریکن اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن کی 2023 کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں ایک تہائی سے زیادہ افراد نے نیند کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کبھی کبھار یا باقاعدگی سے علیحدہ کمروں میں سونے کے بارے میں بتایا ہے۔
جنریشن ایکس
اس تحقیق سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ رجحان ’90 کی دہائی میں پیدا ہونے والوں‘ (وہ نسل جو اس وقت 28 اور 42 سال کی عمر کے درمیان ہے) کے درمیان زیادہ ہے، جہاں تقریباً نصف 43 فیصد نے جواب دیا کہ وہ اپنے ساتھی سے الگ سوتے ہیں۔
اس کے بعد جنریشن ایکس یعنی وہ لوگ جو 1965 اور 1980 کے درمیان پیدا ہوئے آتے ہیں جن کی تعداد 33 فیصد ہے، پھر جنریشن زی ہے یعنی وہ لوگ جو 1997 اور 2012 کے درمیان پیدا ہوئے 28 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر اور آخر میں بومرز یعنی 1946 اور 1964 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد آتے ہیں جن کی تعداد 22 فیصد ہے۔
سٹیفنی کولیر کہتی ہیں کہ ’اگرچہ یہ معلوم نہیں ہے. کہ نوجوان نسلوں میں ایسا کرنے کا زیادہ امکان کیوں ہے، مگر اس ضمن میں کچھ مفروضے ہیں۔ ایک یہ کہ الگ سے سونے کے خیال کو کم بُرا سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک ثقافتی تبدیلی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ ’اگر میں بہتر سلیپ ہوں. تو میں بہتر محسوس کرتا ہوں۔ تو کیوں نہیں؟‘
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس خیال میں تبدیلی آئی ہے
چند مؤرخین کا خیال ہے کہ ’میرج بیڈ‘ یعنی ایک ساتھ ایک ہی بستر پر سونا ایک جدید تصور ہے اور اس کا استعمال صنعتی انقلاب کے ساتھ بڑھا۔ جب لوگ نسبتاً کم کشادہ گھروں اور زیادہ آبادی والے شہروں میں رہنے لگے۔
لیکن وکٹورین دور سے پہلے شادی شدہ جوڑوں کے لیے الگ سونا عام تھا۔
چلی کی کیتھولک یونیورسٹی کے میڈیکل سکول کے ایک سومنولوجسٹ پابلو بروک مین کہتے ہیں کہ ’ سلیپاور جتنا آپ کا معاشرتی یا سماجی رتبہ تھا یا امارت تھی اتنا ہی یہ اُن گھرانوں میں عام تھا۔ یہ جاننا بھی دلچسپ ہے کہ شاہی خاندان کے افراد کیسے سوتے ہیں۔‘
مگر اس کے فوائد کیا ہیں؟
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جو جوڑے الگ الگ کمروں میں سونے کا فیصلہ کرتے ہیں. اس کے کئی فائدے ہیں۔
سٹیفنی کولیر کہتی ہیں کہ ’بنیادی فائدہ یہ ہے کہ وہ باقاعدہ اور گہری نیند لے سکتے ہیں۔ اور اچھی نیند حاصل کرنا مجموعی طور پر صحت و تندرستی کے لیے ضروری ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اگر کوئی شخص سو نہیں سکتا، تو یہ ان کی قوت مدافعت سے لے کر ان کے جسمانی کام کرنے تک ہر چیز کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، آپ کو جلدی غصہ آتا ہے. اور آپ برداشت نہیں کرتے۔ آپ کسی قسم کے ڈپریشن کا بھی شکار ہو سکتے ہیں۔‘
ماہر نفسیات کہتی ہیں. کہ یہ ’صحت مند‘ تعلقات کو برقرار رکھنے میں بھی مدد کر سکتا ہے۔
’ہم جانتے ہیں. کہ جوڑے، جب وہ اچھی طرح سے سلیپ نہیں کرتے ہیں تو زیادہ بحث کرتے ہیں، زیادہ چڑچڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ہمدردی کھو دیتے ہیں۔‘
ماہر نفسیات
پلمونولوجسٹ اور امریکن اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن. کی ترجمان سیما کھوسلہ اس بات سے متفق ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ خراب نیند موڈ کو خراب کر سکتی ہے. اور جو لوگ نیند سے محروم ہیں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بحث کرنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔ نیند میں خلل ڈالنے والے شخص کے تئیں کچھ ناراضگی ہو سکتی ہے، جو تعلقات کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہے۔‘
انھوں نے اس بات کا مشاہدہ اس وقت کیا جب امریکن اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن نے. ’سلیپ ڈائیورس‘ کے حوالے سے اپنی تحقیق کا آغاز کیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’رات کی اچھی نیند لینا صحت اور خوشی دونوں کے لیے سلیپ ضروری ہے، اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے. کہ کچھ جوڑے اپنی مجموعی صحت کے لیے. الگ سونے کا انتخاب کرتے ہیں۔‘
اپنے موجودہ ساتھی سے الگ کمرے میں سونے سے انعم کی ’زندگی بدل گئی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بہت زیادہ آرام دہ ہے۔ بہتر سونے کے قابل ہونے کی حقیقت، بستر میں زیادہ جگہ ہونا، دوسروں کو پریشان کیے بغیر ہلنا، کروٹ لینا وغیرہ۔۔۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ اس کے علاوہ آپ کو اپنے ساتھی کے ساتھ ایک ہی وقت میں جاگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ واقعی اس وقت اٹھتے ہیں. جب آپ چاہتے ہیں یا اس کی ضرورت ہوتی۔
اس کے نقصانات کیا ہیں؟
تاہم الگ الگ کمروں میں سونے کا یہ فیصلہ کچھ منفی پہلو بھی سامنے لا سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سے جوڑے قربت اور محبت کے لمحات کھونے کے بارے میں فکر مند ہیں۔
انعم اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہتی ہیں. کہ ’مجھے لگتا ہے. کہ میرے ساتھی کے ساتھ تعلق کی سطح پر کچھ بدل گیا ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’علیحیدہ سونے سے آپ کے ساتھی کے ساتھ .آپ کے تعلق اور قربت میں فرق پڑتا ہے۔ لیکن یہ اتنا سنجیدہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں اس کے فوائد زیادہ ہیں۔‘
سٹیفنی کولیر بتاتی ہیں کہ بہت سے لوگوں کے لیے. جو کُل وقتی کام کرتے ہیں، وہ لمحہ جب وہ اپنے ساتھی کے ساتھ جڑتے ہیں بالکل ویسا ہی ہوتا ہے. جب وہ سو جاتے ہیں۔
حل
وہ کہتی ہیں کہ ’لہذا ایک حل یہ ہے. کہ وہ اس وقت کو بہتر بنائیں جو وہ ایک ساتھ گزارتے ہیں۔‘
دریں اثنا پابلو بروک مین کہتے ہیں کہ سلیپ ڈائیورس ایسی چیز نہیں ہے جو تمام جوڑوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔
اکٹھا سونے کے کچھ حیاتیاتی فوائد ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے. خواب میں ایک کنکشن پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ماں اور اس کے بچے میں عام طور پر. دودھ پلانے کے دوران یہ تعلق پیدا ہوتا ہے. اور اسی طرح ان کی نیند کا دورانیہ بھی ایک جیسا ہو جاتا ہے۔
ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ ’ایسے مطالعات ہیں جو ظاہر کرتے ہیں. کہ ایسے جوڑے ہیں جو برسوں سے ایک ساتھ سو رہے ہیں اور لیٹتے ہی وہ گہری نیند میں چلے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ آپ اپنی نیند کے معیار کو بہتر بناتے ہیں۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر اگر کوئی جوڑا سلیپ ڈائیورس کی کوشش کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو کچھ سفارشات ہیں جن پر عمل کرنا چاہیے۔
سٹیفنی کولیر کہتی ہیں کہ ’یہ تب کام نہیں کرتا جب ایک شخص یہ چاہتا ہے. اور دوسرا نہیں چاہتا، کیونکہ یہ جوڑے میں ناراضگی کا باعث بن سکتا ہے۔‘
مساوی معاہدے
’کچھ لوگ اکیلے سونا نہیں چاہتے. اور اس سے انھیں بُرا لگتا ہے۔ پھر انھیں ایک مساوی معاہدے کے بارے میں سوچنا ہو گا، ایک ایسا فیصلہ جس میں وہ دونوں شریک ہوں۔‘
بروکمین اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں. کہ ’جس شخص کو یہ مسئلہ درپیش ہے، چاہے وہ خراٹے لے رہا ہو، نیند میں چلتا ہو یا سوتے وقت ٹانگوں کو بہت حرکت دیتا ہو، یہ مشکل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ایسے لوگ ہیں جو اسے پسند نہیں کرتے۔۔۔ عام طور پر، مرد اسے کرنے سے زیادہ ہچکچاتے ہیں۔‘
پھر بھی، یہ بڑھتا ہوا رجحان ظاہر کرتا ہے کہ جب رات کو اچھی نیند لینے کی بات آتی ہے. تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر کیا آپ اب سلیپ ڈائیورس کے فائدے اور نقصانات جان کر کیا اسے اپنانے کی ہمت کریں گے؟