راولپنڈی ٹیسٹ میں انگلینڈ نے ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان کو 74 رنز سے شکست دے کر سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کر لی ہے۔
بین سٹوکس کے ساتھی تو پر عزم تھے ہی لیکن جب بات قربانی کی آئی تو سب سے پہلے سٹوکس نے ہی قربانی دی۔ ایک ایسی پچ جس پر اگر آپ سنبھل کر کھیلیں تو ڈبل سنچری کر سکتے تھے۔ لیکن بین نے ہر گیند کو ٹی 20 سٹائل میں کھیلتے ہوئے رنز کی رفتار تیز کی اور جلدبازی میں آؤٹ بھی ہوئے۔ لیکن اپنے ارادہ سے پیچھے نہ ہٹے۔
انگلينڈ کی اننگز
جب انگلینڈ نے دوسری اننگز میں تیزی سے رنز کرنا شروع کیے تو آؤٹ ہونے کے بھرپور خطرات تھے لیکن کرالی ڈکٹ روٹ بروک جیکس، سب نے تیزی سے رنز کرنے کی کوشش میں وکٹیں تو کھو دی لیکن سکور بورڈ پر پاکستان کے لیے 343 رنز کا مجموعہ سجا دیا، کسی کو بھی اپنے سکور کی پروا نہیں تھی۔
سب سے حیران کن خود سٹوکس تھے۔ پہلی گیند پر اونچا شاٹ اور آؤٹ۔
ایک بے جان وکٹ پر سوا دن میں 343 رنز مشکل نہ تھے، اور پاکستان جیت بھی سکتا تھا لیکن بلے بازوں کی غلط ٹیکنیک اور باؤنسرز سے بھاگنے کی روش نے اس میچ میں انگلینڈ کی پہلے باؤنسرز اور پھر ریورس سوئنگ کے سامنے بلے بازوں کی غلطیاں عیاں کر دی۔ اگر بلے باز ماضی کے لیجنڈز ظہیر عباس اور ماجد خان کی طرح باؤنسروں سے ڈرنے کے بجائے جوابی ہک شاٹ کھیلنے کا طریقہ اپناتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔
بین سٹوکس کپتان کی حیثیت سے یہ جانتے تھے کہ وہ ہار بھی سکتے ہیں اور جب امام الحق سعود شکیل اور ہھر رضوان کی پارٹنرشپ بنی تو گھبراہٹ کا شکار ہوکر فیلڈ دفاعی لے سکتے تھے۔ لیکن وہ اپنے عزم سے پیچھے نہ ہٹے۔
مسلسل دباؤ اور بولنگ کی تبدیلی آخر کار رنگ لے آئی، آسان وکٹ پر پاکستانی بلے باز سوکھے پتوں کی طرح جھڑنے لگے۔
انگلينڈ کی بولنگ
رابنسن کی ریورس سوئنگ اس وقت کام دکھانے لگی ۔جب میچ انگلینڈ کے ہاتھ سے نکل رہا تھا۔ پہلے سلمان آغا اور پھر اظہر علی ریورس سوئنگ پر بچ نہ سکے اور وکٹ دے گئے۔ دوسری طرف سے اینڈرسن کو بھی ریورس سوئنگ ملنے لگی تھی۔ انہوں نے زاہد محمود اور حارث رؤف کو نبٹا دیا۔
پاکستان کی اننگز میں آخری کھلاڑیوں نسیم شاہ اور محمد علی نے انگلش بولروں کا کافی دیر مقابلہ کیا لیکن لیچ کی ایک سیدھی گیند نے ان کی محنت کو کنارے تک نہ پہنچنے دیا، اور پاکستان 74 رنز سے ٹیسٹ میچ ہار گیا۔
انگلینڈ کی طرف سے پارٹ ٹائم وکٹ کیپر اولی پوپ نے شاندار کیپنگ کرتے ہوئے۔ دو بہت مشکل کیچ لیے۔
پاکستان کی بیٹنگ آسان وکٹ ہوتے ہوئے کسی بھی لمحے جارحانہ بیٹنگ کے لیے تیار نظر نہیں آئی اور اسی بزدلی نے انہیں شکست کے غار میں دھکیل دیا۔
اگر پاکستانی بلے باز آخری دن اپنی صلاحیتوں کے مطابق کھل کر کھیلتے تو انگلش بولنگ دباؤ میں آ سکتی تھی لیکن شکست کےخوف نے شکست سے مزید قریب کر دیا۔
انگلینڈ نے ایک ایسے میچ کو جیت میں تبدیل کردیا جو ڈراکی طرف جا رہا تھا۔
اگر اس میچ کے پانچوں دن کا تجزیہ کیا جائے تو ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ فرق ٹیم کا نہیں بلکہ کپتانی کا تھا۔
ایک دفاعی سوچ کے حامل کپتان نے سب کچھ ہوتے ہوئے جنگ اس وقت ہاردی جب جنگ لڑی جا سکتی تھی۔ اور جس نے ساری کشتیاں جلا دی تھیں اس نے فتح کا تاج سجا لیا۔
انگریز ٹیم نے مہمانی کی بھی پروا نہیں کی
میچ ختم ہونے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر انگلینڈ پاکستان ٹرینڈ کرنے لگا۔ اور شائقین کرکٹ اپنی اپنی رائے دینے لگے۔
فضل عباس اپنی ٹویٹ میں لکھتے ہیں: ’قسمت بہادروں کا ساتھ دیتی ہے۔ انگلینڈ اس جیت کا حقدار ہے۔ وہ ضرور جیتیں گے۔‘
ایک اور صارف پاکستان ٹیم کا مذاق اڑائے بنا رہ نہیں پائے اور لکھ دیا
’پاکستان نے پہلے انگلینڈ ٹیم کی مہمان نوازی کی، پھر ہائی وے بنایا، انگلینڈ کو اننگز جلدی ڈکلیئر کرنے پر مجبور کیا اور پھر بھی میچ ہار گئے۔‘
وسڈن انڈیا کی جانب سے بھی ایک ٹویٹ پیش خدمت ہوئی، جہاں انہوں نے لکھا۔ کہ ’پہلا ٹیسٹ بمقابلہ آسٹریلیا – ڈرا
دوسرا ٹیسٹ بمقابلہ آسٹریلیا – ڈرا
تیسرا ٹیسٹ بمقابلہ آسٹریلیا – ہار
پہلا ٹیسٹ بمقابلہ انگلینڈ – ہار
پاکستان نے ابھی تک 2022 میں اپنے گھر پر کوئی ٹیسٹ میچ نہیں جیتا ہے۔‘