ٹِک ٹاک بنانا یا اس کے چیلنجز کو پورا کرنا اتنا ہی آسان ہو سکتا ہے. جتنا کہ رقص کا ایک نیا انداز سیکھنا، کھانا بنانے کی کوئی نئی ترکیب سیکھنا یا پھر تازہ ترین فلٹر آزمانا۔
لیکن بلومبرگ بزنس ویک کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس میں بہت سے مہلک چیلنجز بھی شامل ہو گئے ہیں اور انھوں نے مقبولیت بھی حاصل کی ہے. جس میں نومبر 2022 سے قبل کے 18 مہینوں کے دوران کم از کم 20 بچوں کی موت ہو گئی ہے۔
ان چیلنجز میں سے ایک اپنی سانسوں کو کنٹرول کرنا یا روکنا شامل ہے. تاکہ وہ بے ہوش ہو جائیں۔ اس کے پس پشت یہ خیال کارفرما ہے. کہ جب وہ ہوش میں آئيں. تو ان کے ایڈرینالین رش کو فلمایا جائے۔
ایسا ہی ایک دوسرا چیلنج ہے. جس میں ہذیان کا دھوکہ پیدا. کرنے کے لیے بعض صارفین عام نزلہ زکام اور بخار. کی دوائیوں کا مجوزہ خوراک سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ امریکی ضابطہ کار ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے ان دواؤں کے فعال جزو ڈفین ہائیڈرمائن کے بارے میں انتباہ بھی جاری کیا ہوا ہے. کہ اس کی زیادہ مقدار دل کے مسائل، دل کے دورے، کوما میں چلے. جانے اور یہاں تک کہ موت کا سبب بن سکتی ہے۔
تو پھر ایسے خطرناک کرتبوں سے چے .اپنی جان کو خطرے میں کیوں ڈال رہے ہیں؟
ہم عمر ساتھیوں اور دوستوں کا دباؤ یا اور کچھ۔۔۔
کیلیفورنیا کی فیلڈنگ گریجویٹ یونیورسٹی. میں میڈیا سائیکالوجی ریسرچ سینٹر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر پامیلا رٹلیج. کا کہنا ہے. کہ اس کی ایک ممکنہ وضاحت ہم عمر ساتھیوں یا دوستوں کا دباؤ. اور سماجی حلقوں میں مقبول ہونے کی خواہش ہو سکتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ انھیں کوئی ایسا چیلنج دیتے ہیں جس سے انھیں معاشرے میں اہمیت ملتی ہے تو وہ خود کو دوسرے سے ابتر سمجھتے اور کسی بڑی چیز کا حصہ محسوس کرتے ہیں. جو انھیں دوسرے لوگوں سے جڑنے کا موقع فراہم کرے گا۔
‘بہت سے لوگ اس کے خلاف نہیں جا سکتے کیونکہ وہ نہیں چاہتے. کہ کوئی انھیں بزدل سمجھے یا یہ سمجھے کہ یہ ان کے بس کا نہیں۔۔۔ وہ محروم رہنا نہیں چاہتے ہیں۔‘
وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ بچے ان طرح کی چیزوں کی ذریعے معاشرے میں اپنے مقام کا پتا لگا رہے ہوتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے. کہ کسی ’چیلنج کو قبول کرنے میں بہت زیادہ تنقیدی سوچ شامل نہیں ہوتی ہے۔‘
انھی خیالات کی گونج امریکہ کی سائراکیوز یونیورسٹی میں کمیونیکیشن کی پروفیسر مکانا چوک کے ہاں ملتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اگرچہ بچوں اور نوعمروں میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے کہنے پر خطرناک کام میں شامل ہوتے ہیں، لیکن خاص طور پر سوشل میڈیا کے دور میں یہ چیلنجز بہت عام ہو گئے ہیں۔‘
سوشل میڈیا کے چیلنجز
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’دوستوں کے درمیان رہتے ہوئے پرخطر کام کرنے میں ایک فائدہ یہ ہے. کہ اگر معاملہ بگڑنے لگتا ہے یا بات حد سے آگے بڑھنے لگتی ہے تو دوست مدد کو ہوتے ہیں یا وہ امداد حاصل کر سکتے ہیں. لیکن سوشل میڈیا کے چیلنجز میں خطرناک کام کو تنہائی میں اس نیت کے تحت انجام دیا جاتا ہے کہ اس کے ریکارڈ شدہ ویڈیو کو بعد میں شیئر کیا جائے گا۔‘
یہاں ایک اہم حیاتیاتی عنصر پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ عقلی سوچ کے لیے ذمہ دار اور خطرے کا اندازہ لگانے کی صلاحیت والا دماغ کا حصہ پریفرنٹل کورٹیکس اس وقت تک پوری طرح تیار نہیں ہوتا جب تک کہ لوگ اپنی عمر کی 20 کی دہائی کے وسط تک نہ پہنچ جائیں۔
اس کا مطلب ہے کہ بچوں اور نوجوانوں میں ‘غلط اور اس کے اثرات کو سمجھنے کی حقیقی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔اور ان کے لیے. قوت محرکہ کو روک پانا مشکل ہوتا ہے۔
رٹلیج کا کہنا ہے. کہ یہ ’والدین کے لیے شاید سب سے خوفناک بات‘ ہے۔
متاثرہ خاندانوں کی ٹک ٹاک کے خلاف مقدمہ بازی
کچھ خاندان ٹِک ٹاک پر مقدمہ بھی کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کا الگورتھم ان بچوں کی موت کا ذمہ دار ہے جنھوں نے خطرناک چیلنجز میں حصہ لیا۔
سوشل میڈیا وکٹمز لا سینٹر کے میتھیو برگمین کہتے ہیں. کہ ’جب ہم بچوں کی زندگیوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں. تو دس لاکھ میں سے ایک (موت بھی) بہت زیادہ ہے۔‘
ان کی کمپنی امریکہ میں چھ خاندانوں کے مقدمات کی نمائندگی کر رہی ہے، جن میں سے پانچ اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔
ان میں نو سالہ اریانی جیلین ارویو کے والدین بھی شامل ہیں۔ ارویو فروری 2021 میں اس وقت ہلاک ہو گئیں تھیں جب انھوں نے اپنا گلا دبا کر سانس روکنے کی کوشش کی۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اریانی ایک چیلنج کو انجام دینے کی کوشش کر رہی تھی. جسے انھوں نے ٹک ٹاک پر ’فار یو‘ فیڈ پر دیکھا تھا۔
برگ مین کا استدلال ہے. کہ وہ اس مواد کی تلاش میں نہیں گئی تھیں. بلکہ یہ ان کے صفحہ پر موجود تھا اور یہ ویڈیو پلیٹ فارم کے الگورتھم کے ذریعہ خود بخود پیش کی گئی تھی۔
لہذا اگرچہ ٹک ٹاک نے وہ مواد نہیں بنایا لیکن اس نے ’وہ ذریعہ فراہم کیا جس کے ذریعے اس چیلنج کو بڑھایا اور پھیلایا جا سکتا ہے‘ یا دوسرے لفظوں میں اسے ’وائرل‘ کیا جا سکتا ہے۔