پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیس نے ایک ڈی ایس پی کا مبینہ ڈکیتی کے الزام میں جسمانی ریمانڈ حاصل کیا ہے۔ ڈی ایس پی پر الزام ہے. کہ انھوں نے ایک شہری کے گھر پر چھاپہ مار کر دو کروڑ روپے نقدی. اور 70 تولہ سونے کے زیوارت چھینے ہیں۔
زیر تربیت ملزم ڈی ایس پی کو بدھ کی صبح بکتر بند گاڑی میں ہتھکڑی لگا کر لایا گیا. اور جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ پولیس نے اس موقع پر عدالت سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا جسے منظور کرتے ہوئے عدالت نے ملزم ڈی ایس پی .کو ایک روز ہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
ملزم ڈی ایس پی کے خلاف ایک شہری کی درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ شہری کے مطابق ڈی ایس پی زبردستی اُن کے گھر میں داخل ہوئے، اہلخانہ کو یرغمال بنایا، ڈکیتی کی. اور گھر کے مردوں کو اغوا کر کے ساتھ لے جانے کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ مقدمہ درجن بھر سے زائد ملزمان کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
دوسری جانب ملزم ڈی ایس پی کے وکیل نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے مؤکل زیر تربیت ڈی ایس پی ہیں اور وہ کارروائی کے دوران جائے واردات پر موجود ہی نہیں تھے۔
ایف آئی آر میں کیا کہا گیا ہے؟
اورنگی ٹاؤن کے علاقے پیر آباد کے رہائشی شہری نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ سینیٹری کا کاروبار کرتے ہیں. اور کراچی کی سطح پر سینیٹری کی تمام کمپنیوں کے ڈسٹری بیوٹر ہیں۔
’19 نومبر کی رات 2 بج کر بیس منٹ پر پولیس یونیفارم اور سول ڈریس میں ملبوس 15 سے 20 افراد ایک کالی ویگو، ایک پولیس موبائل، مہران کار اور چند موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر میرے گھر آئے اور تلاشی کے دوران سب گھر والوں کو ایک کمرے میں یرغمال بنایا اور تمام تالے توڑ کر گھر میں موجود تمام سامان باہر نکال لیا۔‘
شہری نے الزام عائد کیا کہ اس کارروائی کے دوران یہ پولیس اہلکار اور سول کپٹروں میں ملبوس افراد گھر میں موجود تقریباً 2 کروڑ روپے نقد، 80 تولہ سونے کے زیورات، موبائل فون، لیپ ٹاپ وغیرہ ساتھ لے گئے۔
پولیس میں درج ہونے والے مقدمے کے مطابق شہری نے بتایا کہ ان افراد نے انھیں اور اُن کے ایک بھائی کو پولیس موبائل میں سوار کیا اور تمام نقدی اور زیوارت سمیت سامان بھی اسی پولیس موبائل میں ڈال دیے۔ شہری کے مطابق اُن کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ کچھ بھی دیکھ نہیں پا رہے تھے، بعدازاں انھیں بلوچ کالونی پل پر (شاہراہ فیصل) اترا اور دوسری گاڑی میں سوار کر دیا اور انھیں دیوار کی طرف کھڑا ہونے کے لیے کہا۔
شہری کے مطابق اسی دوران یہ تمام افراد نقدی، زیوارات اور دیگر اشیا لے کر فرار ہو گئے۔
’آدھی رقم اور زیوارت واپس دے دیے‘
مدعی مقدمہ کے مطابق اس واردات کے بعد انھیں ڈیفنس تھانے بلایا گیا. جہاں موجود ایک ایس ایچ او نے ان سے چھینی گئی رقم میں سے ایک کروڑ تین لاکھ روپے، 12 موبائل فون،2 عدد لیپ ٹاپ اور 5 تولہ زیورات واپس کر دیے۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ انھوں نے ابتدا میں پیرآباد تھانے پر درخواست دی تھی لیکن ایف آئی آر درج نہیں کروائی، تاہم اب تمام تر معلومات اکھٹی کر کے وہ ایف آئی آر درج کروا رہے ہیں لہذا ڈی ایس پی سمیت 15 سے بیس افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔
یاد رہے کہ آئی جی سندھ نے اس ضمن میں خبر شائع ہونے کے بعد ملزم ڈی ایس پی کو معطل جبکہ ایس ایس پی جنوبی کا تبادلہ کرتے ہوئے اس معاملے کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔
’اسلحہ کہاں ہے تعاون کریں‘
شہری نے بدھ کے روز صحافیوں کو بتایا کہ ہفتے. اور اتوار کی درمیانی شب یہ افراد ان کے گھر آئے اور. کہا کہ گھر کی تلاشی لینی ہے تعاون کریں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پولیس نے پورے گھر کی تلاشی لی۔ اس دوران وہ شاپروں میں کیش اور زیورات ڈالتے رہے۔ میں سینیٹری کمپنیوں سے لین دین کرتا ہوں تو گھر میں اتنا کیش موجود تھا۔ میں نے انھیں کہا کہ میں کیا کوئی ڈاکو ہوں مجھے تھانے لے جاؤ۔‘
مدعی کے چھوٹے بھائی جو اس وقت گھر میں ہی موجود تھے. نے دعویٰ کیا کہ اس کارروائی کے دوران پولیس اہلکار انھیں لگاتار کہتے رہے کہ ’اسلحہ دو اسلحہ۔‘ ہم نے تو زندگی میں کبھی اسلحہ دیکھا ہی نہیں۔‘
انھوں نے کہا جب یہ افراد انھیں. اور ان کے بھائی کو اپنے ہمراہ لے گئے. اور بعدازاں ایک سٹرک پر دیوار کی طرف منھ کر کے کھڑا کر دیا۔
’پندرہ بیس منٹ ہم وہاں کھڑے رہے کہ کوئی ہماری آنکھوں سے پٹی اتارے۔ جب ہم نے پٹی اتاری تو دیکھا کہ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ ہم دونوں بھائی اکیلے کھڑے ہوئے تھے اور ہم نے پھر چھیپا والوں کی مدد لی۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم ڈی ایس پی 2021 میں سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے ڈی ایس پی بنے تھے ان کا تعلق سندھ کے جام شورو ضلع سے ہے۔
’مؤکل کا کوئی قصور نہیں، وہ تو موقع پر موجود ہی نہیں تھا‘
ملزم ڈی ایس پی کے وکیل کا کہنا ہے. کہ اس پورے معاملے میں اُن کے موکل کا کوئی قصور نہیں کیونکہ وہ تو زیر تربیت ہیں. اور جائے واردات پر موجود ہی نہیں تھے۔
وکیل نے الزام عائد کیا کہ درحقیقت ایس ایس پی جنوبی نے انھیں کہا تھا کہ ایک چھاپے پر فالو اپ میں جانا ہے۔
وکیل نے دعویٰ کیا کہ ان کے مؤکل کے خلاف درج ایف آئی آر جھوٹ کا پلندہ ہے۔
وکیل کے مطابق ڈی ایس پی زیر تربیت ہیں اور اُن کے پاس اپنا گن مین ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ چھاپہ سندھ پولیس کے بڑے افسران کے کہنے پر مارا گیا تھا. اور انھوں نے ہی زیر تربیت ڈی ایس پی کو چھاپے کو سپروائز کرنے کی ہدایت کی تھی. جسے انھوں نے اپنے دفتر سے سپروائز کیا اور واٹس ایپ کے ذریعے سینیئر افسران کو اس کی اطلاع دی۔
اس سے قبل عدالت میں ملزم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے. کہا کہ ڈی ایس پی زیر تربیت ہیں. اور فی الحال کو کسی گراؤنڈ کارروائی کا حصہ نہیں بن سکتے۔