پاکستانی حکام نے جمعرات کو کہا ہے. کہ ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان. چھوڑنے کے انتباہ کے بعد سے ایک لاکھ 65 ہزار افغان اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔
لنڈی کوتل میں ڈپٹی کمشنر عبدالناصر خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو دی گئی. ڈیڈ لائن کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ طورخم بارڈر پہنچے، لوگ اب بھی رضاکارانہ طور پر واپس آ سکتے ہیں. لیکن آج صرف ایک ہزار افراد سرحد پر موجود ہیں۔‘
خیبر پختونخوا کے صوبائی محکمہ داخلہ نے اے ایف پی کو بتایا. کہ ایک لاکھ 29 ہزار سے زائد افراد خیبرپختونخوا جب کہ 38 ہزار سے زائد بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن سے افغانستان واپس گئے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو کراچی میں پولیس نے ایک آپریشن میں 100 سے زائد افراد کو حراست میں لیا، جبکہ چمن بارڈر کراسنگ کے قریب واقع بلوچستان. کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس نے 425 افغان شہریوں کو حراست میں لے لیا۔
مہم جاری
ڈپٹی کمشنر سعد بن اسد نے اے ایف پی کو بتایا: ’غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف مہم جاری رہے گی۔‘
پاکستان نے ملک میں مقیم تمام ایسے. غیر ملکی شہری جو بغیر دستاویزات کے غیر قانونی طور پر مقیم تھے. کو رضا کارانہ. طور پر ملک چھوڑنے کی مہلت دی تھی، جس کے اختتام پر اب ملک بھر میں کارروائیاں جاری ہیں. اور ایسے افراد کی گرفتاری اور بعد ازاں ملک بدری کا عمل شروع ہو گیا ہے، تاہم غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی رضاکارانہ واپسی بھی جاری رہے گی. اور اس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
حکومت نے ملک بھر میں 49 ہولڈنگ سینٹرز قائم کر رکھے ہیں، جہاں دستاویزات نہ رکھنے والے غیر ملکی شہریوں کو رکھا جائے گا. اور پھر وہاں سے انہیں ان کے وطن واپس بھیجا جائے گا۔
وزارت داخلہ نے گذشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا: ’یکم نومبر سے غیر قانونی غیر ملکیوں کی گرفتاری اور. بعد ازاں ملک بدری کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ تاہم غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی رضاکارانہ واپسی بھی جاری رہے گی. اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔‘
اگست 2021 میں طالبان حکومت کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد اندازے کے مطابق مزید چھ لاکھ افغان شہری پاکستان میں داخل ہوئے تھے جبکہ پاکستان میں 17 لاکھ کے قریب افغان غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔
پاکستان نے کہا ہے. کہ ملک میں دہشت گرد حملوں میں اضافے. کے بعد غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں. کی ملک بدری ملک کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔
زبردستی بے دخل
دوسری جانب امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے. کہ وہ افغان پناہ گزینوں کو زبردستی بے دخل نہ کرے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا: ’ہم پاکستان سمیت افغانستان کے پڑوسی ممالک کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہیں. کہ وہ بین الاقوامی تحفظ کے خواہاں افغان شہریوں. کو داخلے کی اجازت دیں. اور انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے. بین الاقوامی انسانی تنظیموں کے ساتھ رابطہ قائم کریں۔‘
اس کے جواب میں نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے. کہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے انخلا میں محروم طبقات. خصوصاً اقلیتوں کے ساتھ نرم رویہ رکھا جائے گا۔
بدھ کو پارلیمنٹ میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے. وفاقی وزیر خارجہ نے وضاحت کی کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کی ’ولنرایبل کمیونیٹیز‘ سے متعلق نرمی اختیار کی جائے گی۔
’خطرے سے دوچار (ولنرایبل) کمیونٹیز، جن میں اقلیتیں یا کوئی اس قسم کے لوگ ہیں، جن کو کوئی تشویش ہے کہ وہاں جا کر ان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، ان کے بارے میں بھی ہم نرم رویہ اختیار کریں گے۔‘
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے. کہا کہ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی کئی اقسام ہیں. اور اسی لیے ان سے متعلق غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔
وفاقی وزیر خارجہ نے کہا کہ جن افغان پناہ گزینوں کے پاس رجسٹریشن کارڈ یا قانونی دستاویزات موجود ہیں انہیں پاکستان سے بے دخل نہیں کیا جا رہا۔
عزت اور احترام سے چلے جائیں۔
’جن کے پاس بالکل بھی دستاویزات نہیں، انہیں کہا ہے. کہ عزت اور احترام سے چلے جائیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ جن افغان باشندوں. کے پاس پاکستانی دستاویزات ہیں انہیں رہنے کی اجازت ہو گی۔
ہنگامی صورت حال
ادھر طورخم بارڈر پر امیگریشن رجسٹریشن میں کام کرنے والے سمیع اللہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکومتی فیصلے کے بعد اس سرحدی گزرگاہ کو ’ہنگامی صورت حال‘ کا سامنا ہے۔
35 سالہ حاملہ خاتون بینفشہ اپنے چھ بچوں او خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ اپنے آبائی صوبے. قندوز جانے سے پہلے طور خم پر سفری کارروائی کے منتظر تھی۔
انہوں نے نم آنکھوں کے ساتھ بتایا کہ ’قندوز میں ہمارے پاس زمین ہے، نہ رہنے کو گھر اور کوئی روزگار بھی میسر نہیں ہے۔ ہمارے پاس وہاں کچھ نہیں ہے۔‘
افغانستان لوٹنے والے 32 سالہ عرفان اللہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’میرا دل واقعی افغانستان واپس جانے کو نہیں چاہتا لیکن میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘
طالبان کا افغانوں کو وقت دینے پر زور
طالبان کی حکومت نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں موجود قانونی دستاویز نہ رکھنے والے افغانوں کو وہاں سے نکلنے کے لیے مزید وقت دے. کیونکہ سرحدی گزرگاہوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
وکلا اور انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی پاکستانی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے دھمکیاں، بدسلوکی اور حراست کا استعمال کر رہی ہے جب کہ گرفتاریوں اور بھتہ خوری کی رپورٹس بھی سامنے آ رہی ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کے لیے. کام کرنے والی وکیل منیزہ کاکڑ نے کہا: ’پاکستان کا آئین اس سرزمین پر موجود ہر فرد کو منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے. لیکن ان پناہ گزینوں کو اس حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔‘
صوبہ خیبر پختونخوا میں طورخم بارڈر کے قریب لنڈی کوتل میں بدھ کو ہزاروں خاندان رضاکارانہ طور پر ایک ہولڈنگ سینٹر پہنچے جہاں افغان تارکین وطن کی اکثریت مقیم ہے۔
دیگر شہروں میں حراست میں لیے گئے. افغانوں کے ساتھ پولیس کی گاڑیوں کو بھی ایسے ہولڈنگ سینٹرز میں آتے دیکھا گیا۔
حکام نے ایسے گھروں اور کاروباروں کو بھی نشانہ بنایا ہے. جنہیں وہ غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ ساتھ ہی مقامی پاکستانیوں پر بھی غیر قانونی افغانوں کو گھر کرائے پر دینے کے خلاف قانونی کارروائی کی وارننگ دی جا رہی ہے۔