ادریس خان نے حملے سے دو دن قبل مجھے فون کیا اور کہا کہ حالات بہت خراب ہو چکے ہیں اور اس وجہ سے بہت زیادہ احتیاط کرنی ہے۔ گھر سے باہر نہیں نکلنا، اگر کچھ ضرورت ہو یا نکلنا ناگزیر ہو تو مجھے بتانا، میں ساتھ سکیورٹی گارڈ بھیجوں گا۔‘
ادریس خان، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے. کے ایک قریبی عزیز نے بتایا کہ ’دا جان سوات میں طالبان کے خلاف مزاحمت کا نام تھے۔‘
یہ واقعہ پاکستان کے. صوبہ خیبر پختونخوا .کے ضلع سوات کی تحصیل کبل کے علاقے برہ بانڈئی کوٹکے میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق یہ ریمورٹ کنٹرول حملہ تھا۔
سوات امن لشکر کے سابق سربراہ اور اپنے علاقے کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ ادریس خان پر حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔
سوات پولیس کے ابتدائی اعلامیے کے مطابق دھماکے میں رکن امن کمیٹی رہنما سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جن میں ادریس خان کی سکیورٹی پر مامور دو پولیس اہلکار کانسٹیبل توحید اللہ اور کانسٹیبل رامبیل شامل ہیں۔
پولیس نے ابتدائی اعلامیے میں تین اور لوگوں کی شناخت ظاہر نہیں کی تاہم ادریس خان کے ایک عزیز کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں تین مزدور شامل ہیں۔
ادریس خان کے عزیز کہتے ہیں ’دا جان آج کل اپنے نئے گھر کی تعمیر کا کام کروا رہے تھے. وہ روزانہ صبح کام پر چلے جاتے اور پھر شام کو مزدوروں کو بھی اپنی گاڑی میں واپس بٹھا کر لے آتے تھے. جس وجہ سے وہ بے گناہ دیہاڑی دار مزدور بھی اس واقعے کا نشانہ بن گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ دھماکے میں ادریس خان کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔