دلی میں سردی کا آغاز۔ رات و رات سڑکوں کے مناظر بدل جاتے ہیں۔ رکشہ چلانے والوں کے گلے میں ہلکا پھلکا مفلر نظر آنا شروع ہو جاتا ہے، صبح دن کا آغاز گرما گرم چائے کی پیالی سے ہوتا ہے اور پرانی دلی کے چاندنی چوک علاقے کی گلیوں میں فروخت ہونا شروع ہو جاتی ہے ’دولت کی چاٹ۔‘
کریم کی بنی یہ سویٹ ڈش پیالے میں بادل کے ٹکڑے جیسی نظر آتی ہے اور اسے صرف سرد موسم میں ہی تیار کیا جاتا ہے۔ ایلومینیم کے گہرے کنستر نما برتن میں اسے رکھا جاتا ہے اور اوپر سے زعفرانی فوم جیسی کریم کی پرت بچھائی جاتی ہے۔ اوپر گلاب کی پنکھڑیاں رکھ کر ململ کے کپڑے سے ڈھک دیا جاتا ہے۔ ٹھنڈک برقرار رکھنے کے لیے اس برتن کو برف کی سل کے اوپر رکھا جاتا ہے۔
گاہک کے آنے پر دکاندار برتن سے ململ کا کپڑا بڑے احتیاط سے دونوں ہاتھوں سے اٹھاتا ہے۔ چمچے سے بھر کر پھٹی ہوئی ملائی جیسی ڈش پیالے میں ڈالتا ہے اور اس کے اوپر میوے اور گاڑھے دودھ سے بنی کھرچن کی پرت لگاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اوپر چاندی کا ورق لگا کر باریک کٹے ہوئے میوے ڈالتا ہے۔
دولت کی چاٹ
انڈیا دنیا بھر میں اپنے چٹ پٹے کھانوں کے لیے مقبول ہے۔ ایسے میں ’دولت کی میٹھی چاٹ‘ کی مقبولیت تھوڑی عجیب بھی لگتی ہے۔ اس کا نام چاٹ کچھ غلط فہمی بھی پیدا کرتا ہے۔
’دولت کی چاٹ‘ کا موازنہ اکثر شمالی انڈیا کے دیگر علاقوں میں مقبول اسی طرز کی دیگر چاٹ سے بھی کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کانپور کی مکھن ملائی، بنارس کی ملائیو، لکھنؤ کی نِمیش، آگرہ کا سولہ مزے اور گجرات کا دودھ نا پف۔
یہ سبھی فوم جیسی نظر آنے والی ڈشز ہیں جو ملائی سے تیار کی جاتی ہیں لیکن کھانے پینے کے شوقین بتاتے ہیں کہ دولت کی چاٹ کی بات سب سے الگ ہے۔
آدیش کمار چاندنی چوک کی سڑکوں پر دولت کی چاٹ فروخت کرتے ہیں۔ یہ ان کے خاندان کا 40 برس پرانا کاروبار ہے۔ وہ رات ڈھائی بجے اٹھ کر دودھ اور ملائی کو ملا کر پھینٹنی سے بہت دیر تک پھیٹتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے اس دوران رات کی چاندنی اور شبنم اس کی لذت میں اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
متھانی یا پھینٹنی لکڑی کا چمچے جیسا برتن ہوتا ہے۔ اس کے ایک سرے کو رسی سے باندھ کر دونوں ہاتھوں سے رسی کو آگے پیچھے گھماتے ہوئے وہ دودھ اور ملائی کو پھینٹتے ہیں۔
نسل در نسل
جدید ترین آلات کے باوجود آدیش کا خیال ہے کہ ان کا طریقہ کار زیادہ بہتر ہے جسے انھوں نے اپنے والد سے سیکھ تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ’پورے عمل میں ہمیں تقریباً چھ گھنٹے لگتے ہیں۔ ساڑھے سات سے ساڑھے آٹھ کے درمیان ہم اسے تازہ تازہ فروخت کرنے نکل جاتے ہیں۔‘
کریم چاٹ کو آدیش کمار 60 روپے فی پیالی بیچتے ہیں اور اگر کسی کو اوپر سے پستہ، بادام، چاندی کے ورق جیسے مزید لوازمات درکار ہوں تو دام بڑھ جاتے ہیں لیکن بڑھتی مہنگائی کے ساتھ ساتھ اس کاروبار میں آدیش کمار کو ہونے والا منافع کم ہوتا جا رہا ہے۔
صدیوں پرانی اس ڈش کو مہنگائی کے علاوہ اور بھی باتیں نقصان پہنچا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر موسمیاتی تبدیلی۔ ان کے بقول اس میٹھی چاٹ کو بیچنے کے لیے اب زیادہ دن تک اچھا موسم نہیں رہتا جتنا ماضی میں رہا کرتا تھا۔
اس کے علاقہ بڑے بڑے ریستوران میں بڑے شیف اب اس ڈش کو مزید چار چاند لگا کر تیار اور پیش کرنے لگے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان قریب مستقبل میں یہ ڈش سڑکوں پر نظر آنی بند ہو جائے۔
دولت کی چاٹ کہاں سے آئی؟
مغلوں میں یہ ڈش بہت مقبول ہوا کرتی تھی اور شاید اسی وجہ سے دلی میں بھی خاصی مقبول ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
وہ مزیدار کھانے جو انڈیا کی یہودی برادریوں کو متحد رکھے ہوئے ہیں
ترک جوڑے کی وقت گزاری کے لیے شروع کی جانے والی سرگرمی جو کامیاب کاروبار میں بدل گئی
کیا یہ دبئی کا سب سے مستند پکوان ہے؟
کباب بیچنے والے کشمیری شخص کی تصویر بازی لے گئی
ماسٹر شیف انڈیا کا 2016 میں خطاب جیتنے والے اور ’داستان دستر خوان‘ کتاب کے مصنف صدف حسین نے بتایا ’چاٹ کے ہندی میں معنی ہیں کوئی چیز زبان سے چاٹنا اور جس طرح دولت باقی نہیں رہ جاتی ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح دولت کی چاٹ بھی بچ نہیں پاتی۔ عین ممکن ہے کہ مہنگے میووں اور زعفران کی موجودگی اسے دولت کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہی ہو۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ یہ مغلوں کی کوئی ڈش رہی ہو گی۔‘
آدیش کمار کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ دولت مندوں کی چاٹ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’مغل اسے بہت شوق سے کھایا کرتے تھے۔ اسے کھانا کسی معمولی حیثیت والے شخص کے بس میں نہیں تھا۔‘
جہاں آرا بیگم
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ دولت کی چاٹ کو مقبول بنانے میں بادشاہ شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آرا بیگم کا اہم کردار تھا۔ دلی کا شاہ جہان آباد علاقہ ان کے منصوبے کے تحت ہی تشکیل دیا گیا جو اب پرانی دلی کے طور پر جانا جاتا ہے۔
لیکن مغلیہ دور کی کسی اہم تاریخی کتاب میں اس چاٹ کا ذکر نہیں۔ عین اکبری یا نسخہ شاہ جہانی میں بھی نہیں۔ اس لیے تاریخ دان اس بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اس کی تاریخ کے بارے میں ایک اور مزیدار بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ممکنہ طور پر یہ افغانستان کی بوتائی برادری کی دین ہے، جو دودھ میں سے مکھن نکالنے کا کام کرتے تھے۔ انھی کے ذریعے یہ ڈش شاہراہ ریشم کے ذریعے انڈیا پہنچی ہو گی۔
صدف حسین نے بتایا ’ممکن ہے کہ یہ ڈش بوتائی سے ہی آئی ہو۔‘ لیکن اس بارے میں کہیں بھی کچھ لکھا ہوا موجود نہیں۔ حسین کا خیال ہے کہ اس ڈش کا مقصد دودھ اور ملائی کو زیادہ عرصے تک خراب ہونے سے محفوظ رکھنا رہا ہو گا۔
مغليہ دور کی سوغات
کھانے پینے کی روایات اور پکوانوں کی تاریخ کی ماہر شبھرا چیٹرجی ٹی وی سیریز ’لاسٹ ریسیپیز‘ کی ڈائرکٹر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بوتائی برادری میں طرز زندگی کا مطلب بنیادی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ وہ برادری گھوڑے پالتی تھی۔
چیٹرجی کو نہیں لگتا کہ اس ڈش کو خاص طور پر میٹھے پکوان کے طور پر تیار کیا جاتا ہو گا۔ ان کا مقصد دودھ اور ملائی کو زیادہ عرصے کے لیے قابل استعمال رکھنا رہا ہو گا۔
حسین کو لگتا ہے کہ مغلوں کے آنے کے بعد فنکاروں اور کاریگروں کو شاہ جہان آباد میں بلایا گیا ہو گا اور ممکن ہے کہ ان سے ملی ریسیپی کو مغلوں نے اپنی پسند کے مطابق بہتر بنا لیا ہو۔
انھوں نے کہا کہ بنارس میں ملنے والی مکھن ملائی ہی دلی میں مزید لوازمات کے ساتھ دولت کی چاٹ کہلاتی ہے۔
جبکہ چیٹرجی کو لگتا ہے کہ یہ ڈش لکھنؤ کے نوابوں کی دین ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انیسویں صدی میں ان کے پاس بے شمار دولت اور وقت بھی تھا۔ لکھنؤ میں اس چاٹ کو نمیش کہتے ہیں۔
انڈيا کی مقبول ڈش
دولت کی چاٹ کے لیے سوشل میڈیا ایک نیا دور لے کر آیا ہے۔ کھانے پینے کے شوقین انفلوئنسرز کی مدد سے اس ڈش کو پزیرائی ملی ہے۔ لوگ اس کی تصاویر کو انسٹاگرام پر بھی اکثر شیئر کرتے ہیں۔ اب کئی بڑے ریستوران بھی اس ڈش کو مینیو میں شامل کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر دلی کے حویلی دھرمپور اور ممبئی کے ٹریسنڈ ریستوران میں آپ اس ڈش کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔
اس ڈش کا سب سے زیادہ مقبول روپ نئی دلی کے انڈین ایکسنٹ ریستوران میں پایا جاتا ہے۔ ان کے ریستوران میں اس ڈش کی قیمت 720 روپے ہے یعنی آدیش کمار کی دولت کی چاٹ سے 12 گنا زیادہ۔
چیٹرجی نے کہا کہ ’یہ سڑکوں پر ملنے والی ایک خصوصی ڈش ہے جو عین ممکن ہے بادشاہوں کے دسترخوان سے اٹھ کر عام عوام تک پہنچی ہو۔ اور اب دوبارہ یہ ڈش بڑے اور مہنگے ریستوران میں پہنچ رہی ہے۔’
لیکن یہ صورتحال سڑک پر دکان لگا کر فروخت کرنے والوں کے لیے اچھی خبر نہیں۔ ریستوران دولت کی چاٹ کم لاگت میں اور زیادہ آسانی کے ساتھ تیار کر سکتے ہیں۔ انھیں اتنی محنت کرنی پڑتی ہے نہ ہی زیادہ وقت لگتا ہے۔
ماہر باورچی
آدیش کمار نے دولت کی چاٹ بنانا اپنے کزن سے سیکھا تھا۔ اسی کاروبار کے سبب وہ اپنے پانچ بچوں کو سکول اور کالج کی تعلیم دلا سکے۔ ان جیسے دیگر دکاندار اتنے خوش قسمت نہیں رہے اور جیسے جیسے اس کی سڑکوں پر مقبولیت کم ہو رہی ہے ان کے بچے بھی روزگار کے دیگر ذرائع کی جانب راغب ہونے لگے ہیں۔
عام طور پر خزاں سے موسم بہار تک دلی کے موسم میں ٹھنڈک رہتی تھی جب دولت کی چاٹ کی خوب فروخت ہوا کرتی تھی لیکن موسمیاتی تبدیلی کے سبب اب محض نومبر سے فروری تک ہی اس کی فروخت ہوتی ہے۔
حالانکہ مقامی افراد کے لیے آج بھی دولت کی چاٹ ایک خاص میٹھی ڈش ہے۔ حسین نے کہا کہ ’مجھے دولت کی چاٹ کسی بھی اور شہر میں ملنے والی اس ڈش سے بہتر لگتی ہے۔ یہ کھانے میں ہلکی ہوتی ہے اور زیادہ میٹھی بھی نہیں۔‘
I have to thank you for the efforts youve put in penning this site. Im hoping to view the same high-grade blog posts by you later on as well. In fact, your creative writing abilities has encouraged me to get my very own website now 😉
Филми за проститутки: 26 най-добри игрални филма за живота на проститутките. [url=https://sex-bez-obyazatelstv-odessa.online]Ищу девочку для секса на выходных [/url] но меня убивает одно ладно ты мужик без чуства собственности без капли ревносtи и без. Девочки ну честно не понимаю как так можно жить. причем я не. мне 29 лет, я замужем и имею двоих маленьких детей. и у нас очень редкий секс. Моя жена проститутка. я за прошлые выходные "заработала” за секс. Жена проститутка автор. мой муж зарабатывает порядка 65 тыс в месяц. ну все по порядку. с моим мужем работает один чудик который не комплексует по поводу профессии своей жены. [url=https://sex-bez-obyazatelstv-sumy.online]Проститутки индивидуалки [/url] Не предлагам пари и не търся такива, правя го за удоволствие. Может, он обегал всех друзей и знакомых в поисках денег, но занять не удалось. Животът се подобрява. Загруженные изображения. Американските филми за жрици на любовта са признати лидери в световния боксофис. Драмата „Гола целувка“ () разказва за тежката житейска ситуация на бившата проститутка Кели. [url=https://sex-bez-obyazatelstv-zaporozhe.online]Ищу серьезных отношений [/url] Семеен съм. И потом, если изначально муж не нес ответственности за семью и такой муж жену устраивал (значит, давал ей что-то еще необходимое, позволяющее жить с ним), то жена должна была знать его реакцию на это. Започна афера с известен богаташ в града. Тя не е просто проститутка, а предприемач, разработил най-успешния публичен дом в града. Тя успя да избяга от сводника. [url=https://sex-bez-obyazatelstv-zaporozhe.online]Секс знакомства ВКонтакте [/url] [url=https://lecodelinguistique.org/fr/node/46?page=587#comment-38577]Пара МЖ секс Проститутки[/url] fb8a50c