گرمی کی غیر معمولی لہر: موسم میں شدت کی وجہ کیا ہے؟

موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں لوگ شدید گرمی کی لہروں، تباہ کن سیلابوں اور جنگلوں کی آگ کا سامنا کر رہے ہیں۔

پاکستان کے کچھ حصوں اور شمال مغربی انڈیا میں گذشتہ ہفتے کے آخر میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ دیکھا گیا۔

خیال رہے کہ صنعتی دور کے آغاز سے ہی فوسل فیول کے جلنے سے پیدا ہونے والی گیسوں کا اخراج ماحول میں گرمی کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اوسط درجہ حرارت میں 1.1 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا۔

یہ اضافی گرمی غیر مساوی طور پر منقسم ہے اور فی الحال ہم اس کی انتہائی شکل دیکھ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں کمی کے بغیر یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

یہاں چار طریقے پیش کیے جا رہے ہیں جن میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلی شدید موسم میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔

1۔ زیادہ گرم اور زیادہ طویل گرمی کی لہریں

اوسط درجہ حرارت کی چھوٹی موٹی تبدیلیوں کے اثرات کو سمجھنے کے لیے آپ اسے یوں دیکھیں کہ کہ وہ کوئی گھنٹی ہے جس کے دونوں سرے شدید ٹھنڈک یا شدید گرمی ہیں اور درجۂ حرارت کا زیادہ تر حصہ درمیان میں ہے۔

یعنی گھنٹی کے درمیان یا مرکز میں اگر ایک چھوٹی سی بھی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اثرات دونوں سروں پر نظر آئیں گے اور اس طرح گرمی اور سردی کی لہریں زیادہ اور شدید ہوتی جائيں گی۔

BBC

برطانیہ میں میٹ آفس (شعبۂ موسمیات) کا کہنا ہے کہ پچھلے 50 برسوں میں گرمی کی لہروں کی لمبائی دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔

اس شعبے کا کہنا ہے کہ گرمی کی لہروں میں ایک اور موسمی رجحان یعنی ہیٹ ڈوم (گرمی کے گنبد) کی وجہ سے شدت یا طوالت آ سکتی ہے۔

زیادہ دباؤ والے علاقے میں گرم ہوا نیچے کو دھکیلی جاتی ہے اور بعض جگہ یہ پھنس جاتی ہے جس کی وجہ سے پورے کے پورے براعظم میں درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔

جب طوفان تیز رفتار ہوا کے دھاروں سے بنے جیٹ سٹریم کو متاثر کرتا ہے تو یہ سکیپنگ روپ یعنی کودنے والی رسی کو ایک سرے پر ہلانے اور اس کے ساتھ اٹھنے والی لہروں کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے جیسا لگ سکتا ہے۔

BBC

یہ لہریں ہر چیز کو تیزی سے سست کرنے کا سبب بنتی ہیں اور موسمی نظام اس دائرے والے علاقوں میں کئی دنوں تک پھنسے رہ سکتے ہیں۔

اسی قسم کا پھنسا یا رکا ہوا موسم بھی انڈیا اور پاکستان میں ریکارڈ گرمی کے لیے ذمہ دار ہے۔ مسلسل ہائی پریشر اور معمول سے کم بارش کی وجہ سے 122 سال میں جب سے موسم کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا ہے اس کے بعد سے رواں سال انڈیا کا گرم ترین مارچ رہا ہے۔

پاکستان کے گرم ترین مارچ کے درمیان کراچی میں بھی گرم ترین مارچ ریکارڈ کیا گیا ہے خواہ وہ دن کا درجۂ حرارت ہو کہ رات کا۔ اپریل میں گرمی کی لہر کی وجہ سے، پاکستان میں پھر سے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔

جیکب آباد میں ایک موقع پر 49 ڈگری سینٹی گریڈ درجۂ حرارت ریکارڈ کیا گیا جبکہ وسطی اور شمال مغربی انڈیا میں بھی ریکارڈ توڑ گرمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بی بی سی

برطانیہ کے محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ رواں ہفتے کے آخر میں خطے کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے اور اگلے ہفتے کے آخر تک اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ گرمی کی یہ سطحیں سال میں اس وقت کے لحاظ سے اوسطا تقریباً 5-7 زیادہ ہیں۔

جنوبی نصف کرہ یعنی ارجنٹائن، یوراگوئے، پیراگوئے اور برازیل جیسے تمام ممالک میں جنوری میں ایک تاریخی ہیٹ ویو دیکھی گئی اور بہت سے علاقوں نے اپنے گرم ترین دن کی اطلاع دی۔

رواں ماہ مغربی آسٹریلیا کے آنسلو میں درجۂ حرارت 50.7 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جو کہ جنوبی نصف کرہ میں قابل اعتماد طور پر اب تک کا سب سے زیادہ ریکارڈ شدہ درجہ حرارت ہے۔

گذشتہ سال شمالی امریکہ میں طویل گرمی کی لہروں کا دورانیہ دیکھا گیا تھا۔ مغربی کینیڈا کے لیٹن میں درجہ حرارت 49.6 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا جو کہ پہلے کے ریکارڈ سے تقریباً پانچ ڈگری زیادہ تھا۔ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بغیر اتنی شدید گرمی کی لہر تقریباً ناممکن ہے۔

chart

ایک نظریہ یہ ہے کہ آرکٹک یعنی قطب شمالی کے علاقے میں زیادہ درجہ حرارت جیٹ سٹریم کو سست کرنے کا سبب بن رہا ہے جس کی وجہ سے گرمی کے گنبد بننے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔

2- زیادہ اور مسلسل خشک سالی

جیسے جیسے گرمی کی لہریں زیادہ شدید اور طویل ہوتی جائیں گی خشک سالی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

گرمی کی لہروں کے درمیان کم بارش کے ہونے سے زمین کی نمی اور پانی کی فراہمی زیادہ تیزی سے خشک ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زمین زیادہ تیزی سے گرم ہوتی ہے، اوپر ہوا کو گرم کرتی ہے اور زیادہ شدید گرمی کا باعث بنتی ہے۔

انسانوں اور کھیتی باڑی کے لیے پانی کی ضرورت پانی کی فراہمی پر مزید دباؤ ڈالتی ہے جس سے اس کی قلت میں اضافہ ہوتا ہے۔

خشک سالی
،تصویر کا کیپشنبارش کی کمی کے سبب افریقی ملک صومالیہ کو مسلسل تین برسوں سے قحط سالی یا خشک سالی کا سامنا ہے

3۔ جنگل کی آگ کے لیے مزید ایندھن

جنگل کی آگ براہ راست انسانی عمل دخل سے بھڑک سکتی ہے لیکن اس میں قدرتی عوامل بھی بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید اور طویل المیعاد گرمی کا چکر زمین اور پودوں سے زیادہ سے زیادہ نمی کھینچ لیتا ہے۔

آگ لگنے کے لیے یہ سازگار خشک حالات ایندھن فراہم کرتے ہیں جو ناقابل یقین رفتار سے پھیل سکتی ہے۔

بارش کی کمی اور غیر موسمی گرمی کی وجہ سے شمالی نصف کرہ کے کچھ علاقوں میں جنگل کی آگ کا موسم قبل از وقت شروع ہو چکا ہے۔ سائبیریا اور الاسکا کے کچھ حصوں میں پہلے ہی آگ پھیل چکی ہے، اور مغربی ناروے اور برطانیہ میں بھی غیر معمولی طور پر قبل از وقت آگ لگنے کی اطلاعات ملی ہیں۔

آگ بجھانے کے لیے طیارے کا استعمال
،تصویر کا کیپشنگذشتہ ماہ سلووینیا میں آگ بجھانے کے لیے طیارے کا استعمال کیا گيا

کینیڈا میں گذشتہ موسم گرما میں، گرمی کی لہریں آگ کا باعث بنیں جو اتنی تیزی سے اور دھماکہ خیز طریقے سے تیار ہوئیں کہ ان سے پائیروکومولونمبس بادل بنے اور انھوں نے اپنا موسمی نظام بنا لیا۔ ان بادلوں نے بجلی پیدا کی اور مزید آگ بھڑکائی۔

حالیہ دہائیوں میں جنگل کی بڑی آگ کی تعدد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔

سائنس دانوں اور صحافیوں کی ایک آزاد تنظیم، کلائمیٹ سینٹرل کے مطابق سنہ 1970 کی دہائی کے مقابلے، 10,000 ایکڑ (40 مربع کلومیٹر) سے بڑے رقبے پر لگنے والی آگ اب مغربی امریکہ میں سات گنا زیادہ عام ہے۔

جنگل کی بڑی آگ سے اٹھنے والے دھویں بادل کی شکل لے سکتے ہیں
،تصویر کا کیپشنجنگل کی بڑی آگ سے اٹھنے والے دھویں بادل کی شکل لے سکتے ہیں

4۔ زیادہ شدید بارشیں

معمول کے موسمی چکر میں گرم موسم ہوا میں نمی اور آبی بخارات پیدا کرتا ہے، جو بارش کے لیے بوندوں میں بدل جاتا ہے۔

بہر حال یہ جتنا گرم ہو گا فضا میں زیادہ بخارات جمع ہوں گے جس کے نتیجے میں زیادہ بوندیں ہوں گی اور نتیجہ زیادہ بارش۔ کبھی کبھی زیادہ بارش مختصر وقت میں اور ایک چھوٹے سے علاقے میں۔

رواں سال پہلے ہی ایسا دیکھا گیا اور سیلاب نے سپین اور مشرقی آسٹریلیا کے کچھ حصوں کو متاثر بھی کیا ہے۔ صرف چھ دنوں کے عرصے میں برسبین میں سالانہ بارش کا تقریباً 80 حصہ برس گیا تھا، جب کہ سڈنی میں تین ماہ سے بھی کم عرصے میں اپنی سالانہ اوسط سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی۔

چارٹ

امریکی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں پانی کے ماہر پیٹر گلیک کے مطابق بارش کے یہ واقعات کہیں نہ کہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے جڑے ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘جب خشک سالی کے علاقوں میں اضافہ ہوتا ہے، جیسا کہ سائبیریا اور مغربی امریکہ میں دیکھا گیا تو ایسے میں کہیں اور بارش ہوتی ہے، اور یہ ایک چھوٹے سے علاقے میں ہوتی ہے جس کے سبب سیلاب کی صورت حال بد سے بدتر ہو جاتی ہے۔’

دنیا بھر میں موسم ہمیشہ انتہائی متغیر رہتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی اسے مزید شدید بنا رہی ہے۔

اور ایسے میں صرف یہ چیلنج نہیں کہ ماحول پر لوگوں کے مزید اثرات کو محدود کیا جائے بلکہ شدید موسم کے حساب سے ڈھلنا بھی ایک چیلنج ہے جس کا ہمیں فی الحال سامنا ہے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.