کمپیوٹر، مائیکرو چپس اور سمارٹ فون کیمرے: چاند پر جانے کے لیے بنائی گئی پانچ اشیا جو عام انسانوں کے کام آئیں

آخرکار انڈیا نے چندریان 3 کو چاند پر کامیابی سے اتار کر تاریخ رقم کر دی ہے۔ امریکہ، روس اور چین کے بعد انڈیا وہ چوتھا ملک بن گیا ہے. جس نے چاند کی سطح پر کامیابی کے ساتھ سافٹ لینڈنگ کی ہے۔

اس کے ساتھ انڈیا چاند کے جنوبی قطب کے قریب خلائی جہاز اتارنے والا دنیا کا پہلا ملک بھی بن گیا ہے۔

مگر یہ سوالات بھی پوچھے جا رہے ہیں کہ کوئی ملک چاند تک کیوں پہنچنا چاہتا ہے؟ کیا وہاں انسانی بستیاں بنانے کا ارادہ ہے؟ حکومت خلائی تحقیق پر رقم خرچ کرنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر کیوں خرچ نہیں کرتی؟

چندریان جیسے مشن ہمیں صرف چاند. کے بارے میں ہی معلومات فراہم نہیں کرتے۔

چاند پر مشنز بھیجنے کی وجہ سے انسانوں کو بہت سارے فائدے ہوئے ہیں اور ان کی مدد سے ہماری زندگیاں مزید آرم دہ ہوئی ہیں۔ اس دوران ہمیں چند ایسی چیزیں ملیں یا دریافت ہوئی ہیں جس کی مدد سے ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی ہے۔

آئیے ایسی ہی پانچ چیزوں کو دیکھتے ہیں۔

ڈیجیٹل فلائٹ کنٹرول

کمپیوٹر

ایک وقت تھا جب کمپیوٹر بہت بڑے ہوا کرتے تھے وہ ابتدائی ایام میں ایک کمپیوٹر پورے کمرے یا ہال کی جگہ لے لیتے تھے۔

کتاب ’ڈیجیٹل اپالو‘ کے مصنف ڈیوڈ منڈیل کہتے ہیں. ’لیکن سنہ 1960 کی دہائی کا قمری مشن وہ دور تھا جب لوگوں نے اس بارے میں بات کرنا شروع کی کہ ان کے کمپیوٹر کتنے چھوٹے اور کمپیکٹ ہو سکتے ہیں۔‘

کمپیوٹر کو سب سے پہلے ناسا کے اپالو مشن کے دوران ایک سوٹ کیس میں فٹ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس میں ایک سکرین، ایک ان پٹ کِی بورڈ تھا جس کے ذریعے انسان زمین سے تقریباً 3.8 لاکھ کلومیٹر دور ایک بڑے خلائی جہاز کو کنٹرول کر سکتا تھا۔ بنیادی طور پر یہ کمپیوٹر پہلا ڈیجیٹل سٹیئرنگ کنٹرولر تھا۔

اس ٹیکنالوجی نے ڈیجیٹل فلائی بائی وائر کو جنم دیا، جو آج ہر ہوائی جہاز میں پایا جاتا ہے۔

پہلے ہائیڈرولک آلات ہوتے تھے جنھیں الیکٹرانک کنٹرول ڈیوائس سے بدلا دیا گیا تھا. اور یہ پہلا ڈیجیٹل فلائٹ کنٹرول تھا۔

کمپیوٹر، مائیکرو چپس اور سمارٹ فونز

 مائیکرو چپ

اب جہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی آئی وہاں کمپیوٹر آ گئے۔ سنہ 1969 کے ناسا کے قمری مشن میں اپالو 11 خلائی جہاز پر ایک کمپیوٹر موجود تھا، جس کی مدد سے نیل آرمسٹرانگ اور بز آلڈرن نے چاند پر پہلا قدم رکھا تھا۔

اور اس کمپیوٹر کی خصوصیات سُن کر آپ تھوڑے حیران ہوں گے. کہ اس میں تقریباً 74 کلوبائٹ روم اور 4 کلو بائٹ ریم میموری تھی۔

ہم یہاں کلو بائٹ کی بات کر رہے ہیں. آج آپ کے فون میں جی بی یعنی گیگا بائٹس کی میموری ہوتی ہے جو کلو بائٹ سے لاکھوں گنا زیادہ ہے۔

امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ اور خلائی دوڑ کے پیش نظر امریکہ اپنے خلائی مشن کو تیزی سے آگے بڑھانا چاہتا تھا۔ اس کے لیے ملک میں انٹیگریٹڈ سرکٹ کی کل پیداوار کا 60 فیصد حصہ اپولو مشن کو جا رہا تھا۔

مصنف ڈیوڈ منڈیل کہتے ہیں ’اس وقت، سلیکون چپس اور انٹیگریٹڈ سرکٹس جدید ٹیکنالوجی تھی اور ناسا بھی انھیں خلائی جہاز میں استعمال کر رہا تھا۔ یہ خبر پھیل گئی. کہ ملک میں سلیکون انقلاب شروع ہو گیا ہے۔ یہ اپالو مشن ہی تھے. جنھوں نے دنیا کو اس ٹیکنالوجی کی افادیت کا قائل کیا اور اسے پھیلانا شروع کیا۔

اس کی وجہ سے یہ چپس زیادہ سے زیادہ طاقتور اور چھوٹی ہوتی گئیں، اتنی چھوٹی کہ آج ہمارے ہاتھوں میں سمارٹ فونز میں موجود ہیں۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.