کروکر: ماہی گیروں کو لکھ پتی بنانے والی نایاب مچھلی جو اپنی آواز کی وجہ سے پکڑی جاتی ہے

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی ضلع گنز سے 18 کروکر مچھلیاں پکڑنے والے ماہی گیر خوش قسمت بھی تھے اور بد قسمت بھی۔

ان کی خوش قسمتی کی وجہ یہ تھی کہ اس نایاب مچھلی کا شکار انتہائی مشکل تصور کیا جاتا ہے اور ان کو ایک یا دو نہیں بلکہ اکھٹی 18 کروکر مچھلیاں مل گئیں۔ ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان 18 مچھلیوں کے عوض ان کو صرف آٹھ لاکھ روپے ملے۔

جی ہاں۔ صرف آٹھ لاکھ۔ کہنے کو تو 18 مچھلیوں کے عوض یہ کوئی معمولی رقم نہیں لگتی۔ لیکن گزشتہ سال جیونی سے پکڑی جانے والی صرف ایک کروکر مچھلی 72 لاکھ روپے میں بکی تھی۔

واضح رہے کہ کروکر ایک نایاب مچھلی ہے جو مئی سے جولائی تک پاکستان کے سمندر میں پائی جاتی ہے اور مختلف وجوہات کی بنا پر دنیا بھر میں اس مچھلی کی کافی مانگ ہے۔

ماہرین کے مطابق اس مچھلی کو کر کر کی آواز کی وجہ سے کروکر کہا جاتا ہے جو کہ یہ اپنی مادہ کو آواز دینے یا دوسرے ساتھیوں سے رابطے کے لیے نکالتی ہے۔

18 کروکر مچھلیاں کم قیمت پر کیوں فروخت ہوئیں؟

یہ 18 کروکر مچھلیاں بلوچستان میں گنز کے علاقے سے ساجد عمر نامی ماہی گیر اور ان کے ساتھیوں نے شکار کی تھیں۔

میں نے ساجد عمر سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں مہنگی مچھلیاں پکڑنے کے حوالے سے ان سے بات ہو سکے لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

تاہم جیونی میں جانوروں کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ریسرچ ایسوسی ایٹ سدھیر بلوچ نے ایک ساتھ 18 مچھلیوں کے پکڑے جانے کی تصدیق کی۔

سدھیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ان کی اطلاع کے مطابق ان میں سے ایک مچھلی پانچ لاکھ روپے تک بکی ہے جبکہ 18 مچھلیوں کی مجموعی قیمت 8 لاکھ روپے حاصل ہوئی۔

سدھیر بلوچ نے بتایا کہ ان مچھلیوں کی قیمت کا انحصار ان کے ایئر بلیڈر پر ہوتا ہے جس میں ہوا بھرنے کی وجہ سے وہ تیرتی ہیں۔

’جس مچھلی کا حجم بڑا اور وزن زیادہ ہوگا، اس کا بلیڈر بھی بڑا ہوگا۔ دوسرا نر کروکر مچھلیوں کے بلیڈر کا سائز بڑا ہوتا ہے، اس لیے مادہ کروکر کے مقابلے میں نر کروکر کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔‘

یہ مچھلی اتنی قیمتی کیوں ہے؟

کروکر مچھلی

آخر ان مچھلیوں میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ ایک مچھلی کی قیمت لاکھوں میں ہے؟

گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات اور ماہرِ سمندری حیات عبدالرحیم بلوچ نے بتایا کہ ’بعض مچھلیاں اپنے گوشت کی وجہ سے بہت زیادہ قیمتی ہوتی ہیں لیکن کروکر کے حوالے سے معاملہ مختلف ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس مچھلی کا ایئر بلیڈر طبی استعمال میں آتا ہے اور چین، جاپان اور یورپ میں اس کی مانگ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ کروکر مچھلی کا ایئر بلیڈر انسانی جسم کے اندرونی اعضا میں دورانِ سرجری لگائے جانے والے ٹانکوں بالخصوص دل کے آپریشن میں سٹچنگ وغیرہ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

محکمہ فشریز کے سینیئر آفیسر احمد ندیم کا کہنا تھا کہ سرجری میں استعمال کے لیے کروکر مچھلی کے ایئر بلیڈرز کے دھاگے بنائے جاتے ہیں۔

’ان کی خوبی یہ ہے کہ یہ جیلی کی طرح جذب ہو جاتے ہیں اور زخم کو جما دیتے ہیں۔ سرجری میں ٹانکے لگانے کے بعد ان کو نکالنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کے ایئر بلیڈر سے بننے والے سوپ کو چین، یورپ اور دیگر سرد ممالک میں لوگ استعمال کرتے ہیں۔ ’اسے ایک پرتعیش غذا کا درجہ حاصل ہے۔‘

احمد ندیم نے بتایا کہ جسمانی طاقت کو بڑھانے کے علاوہ کیلشیم زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ ریڑھ کی ہڈی کی مضبوطی کے لیے بھی مفید سمجھی جاتی ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ریسرچ ایسوسی ایٹ سدھیر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ کروکر مچھلی کا ایئر بلیڈر کاسمیٹکس کی تیاری میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

کروکر مچھلی کا ایک اور استمعال بھی اس کی مانگ اور قیمت میں اضافے کی وجہ ہے۔

کروکر

سدھیر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ کاسمیٹکس اور سوپ میں استعمال ہونے کے علاوہ اس کا بلیڈر شراب کی صفائی کے کام آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شراب کی صفائی کے لیے سور یا گائے کی چربی کا بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اسی لیے کئی لوگ مذہبی عقائد کی وجہ سے صرف اس شراب کو ترجیح دیتے ہیں جو کہ کروکر مچھلی کی بلیڈر سے صاف کیا گیا ہو۔‘

محکمہ فشریز کے سینیئر اہلکار احمد ندیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ماضی میں کروکر مچھلی کے ایئر بلیڈر کو مقامی طور پر خشک کیا جاتا تھا اور بعد میں سری لنکا بھیجا جاتا تھا جو کہ بمشکل سو روپے میں بکتا تھا۔

فشریز کے سینیئر افسر نے بتایا کہ بعد میں کراچی میں فروخت کا سلسلہ شروع ہوا تو اس مچھلی کی قیمت پانچ ہزار روپے تک پہنچ گئی جو اب لاکھوں تک جا پہنچی ہے۔

’اب کولنگ ٹیکنالوجی کی وجہ سے کروکر کے ایئر بلیڈر کو یہاں نہیں نکالا جاتا بلکہ کراچی لے جایا جاتا ہے تاکہ یہ ضائع یا خراب نہ ہوں۔‘

کروکر مچھلی کی آواز ہی شکاری کے جال تک پہنچاتی ہے

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ریسرچ ایسوسی ایٹ سدھیر بلوچ نے بتایا کہ مئی سے جون ان مچھلیوں کے عروج کا موسم ہوتا ہے ۔

’یہ انڈے دینے کا وقت ہوتا ہے جس کے لیے ایران اور پاکستان کا درمیانی سمندری علاقہ موزوں ترین ہے اسی لیے یہ یہاں بڑی تعداد میں پکڑی جاتی ہیں۔‘

لیکن اس مچھلی کا شکار بھی آسان نہیں۔

سدھیر بلوچ کہتے ہیں کہ ’ضروری نہیں کہ ہر ایک اس کے شکار میں کامیاب ہو۔ بعض ماہی گیر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ مہینہ بھر اس کے شکار کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کو کامیابی نہیں ملتی۔‘

انھوں نے بتایا کہ کروکر کے شکار کے مختلف طریقے ہوتے ہیں لیکن اس کی آواز کی مدد سے اس کی موجودگی کا پتہ چلایا جاتا ہے۔

’ایک مقامی طریقہ ہے جس میں پورے غول کو ہی جال میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کو بلوچی زبان میں اڑنگا کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے ایک پائپ کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے منہ پر ایک بوتل باندھ دی جاتی ہے۔‘

’ماہر شکاری اس پائپ کو سمندر میں ڈال کر اس کا دوسرا سرا اپنے کان سے لگا کر کروکر کی آواز سنتے ہیں۔ اس سے وہ اندازہ لگاتے ہیں کہ مچھلی کہاں اور کتنے فاصلے پر ہے اور کتنی تعداد میں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جگہ کا تعین کرنے کے بعد وہ اس مقام پر جال پھینکتے ہیں۔‘

فائل فوٹو
،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

’بعض لوگ جو ماہر نہیں ہوتے، وہ اوپر سے ہی سننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی آواز آ رہی ہے یا نہیں۔ یہ لوگ ادھر جاتے ہیں جہاں لہریں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں اور ان لہروں سے کچھ فاصلے پر جال پھینکتے ہیں۔‘

’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس فائبر کی بنی سپیڈ بوٹس ہیں جو اپنے جال شام کو پھیکتے ہیں اور پھر اگلے روز نکالتے ہیں۔ اگر ان کے جال میں کچھ نہیں ہو، تو وہ جال دوبارہ پھینکتے ہیں اور اس عمل کو شکار کے موسم کے دوران دہراتے رہتے ہیں۔‘

کیا کروکر معدومی کے خطرے سے دوچار ہے؟

اہم بات یہ ہے کہ کروکر کا شکار ایک ایسے وقت میں کیا جاتا ہے جب مچھلی کے شکار پر پابندی ہوتی ہے۔

سدھیر بلوچ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’یہ صرف اسی موسم میں ہی ساحلی علاقوں میں انڈے دینے کے لیے آتی ہے۔‘

لیکن یہ مچھلی معدومی کا شکار ہو سکتی ہے۔

سدھیر بلوچ کہتے ہیں کہ ’کسی بھی جانور کے تحفظ کے لیے انتظامات کے بغیر حد سے زیادہ شکار ہو تو وہ ضرور معدومی کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں۔‘

لیکن ساحلی بلوچستان میں جہاں مقامی آبادی کے بڑے حصے کا ذریعہ معاش ماہی گیری پر منحصر ہے، اس مچھلی کے شکار پر پابندی تو کام نہیں کر سکتی۔

سدھیر بلوچ کہتے ہیں کہ ’کروکر کے تحفظ اور اس کی نسل کو بڑھانے کے لیے اقدامات ضرور کیے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے سب سے پہلے ریسرچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو کہ افسوس کے ساتھ یہاں کم ہوتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ پابندی لگانے یا کروکر کے شکار کو کنٹرول کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ’اس سلسلے میں تحقیق ہو کہ اس مچھلی کی افزائش نسل کے علاقے کون سے ہیں اور پھر ان کو ممنوعہ علاقہ قرار دیکر اس کی نسل کو معدومی کے خطرے سے دوچار ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.