چاچا کے تیزاب سے جلے ہوئے ہاتھ سراج کو کچرے سے خالص سونا بنانا سِکھا رہے تھے۔ یہ کراچی میں شیر شاہ کباڑی مارکیٹ کا علاقہ ہے جہاں خیبرپختونخوا کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا سراج بڑے بڑے خواب لے کر آیا تھا۔
سراج اپنے گاؤں سے یہ طے کر کے نکلا تھا. کہ کراچی پہنچ کر جو بھی کام سیکھے گا، اس میں مہارت حاصل کرنے کے بعد واپس جائے گا اور پھر اپنے دوستوں کو بھی وہی کام سکھائے گا۔ کروڑوں کے ہجوم والے شہر میں خرخیل کے سراج کو ایک اچھوتا کام مل بھی گیا. جس کے بارے میں اس نے پہلی بار بچپن میں سنا تھا۔
ایک زمانے میں کراچی کے نیپا فلائی اوور سے گزرتے ہوئے نیچے بائیں ہاتھ پر ایک بڑا سارا میدان نظر آتا تھا، جس بیچوں بیچ سنہرے اور چاندی. کے رنگوں کے ڈبے نما عمارتی ڈھانچے بنے ہوئے تھے۔ ان پر بڑے بڑے بینر آویزاں تھے، ’کچرا دو، سونا لو۔‘
یہ نعرہ گل بہاؤ ٹرسٹ نامی ایک ماحولیاتی این جی او نے لگایا تھا. جو اُس زمانے میں اپنے اچھوتے تصور کی وجہ سے بہت مشہور ہوئی۔ کچرے سے مراد تھی روزمرہ کے دوران گھروں میں جمع ہونے والا کوڑا کرکٹ اور کارخانوں کا ویسٹ یعنی فضلہ، اور سونے سے مراد تھی وہ تعمیراتی سٹرکچرز جو گُل بہاؤ اس کچرے کی مدد سے بنا کر دے رہی تھے۔
کچرا دے کر سونا
اس زمانے میں سراج پہلی بار کراچی آیا تھا۔ اس کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ تب اُس نے ایک دن پہلوان گوٹھ جاتے ہوئے گلستان کوچ کی کھڑکی سے یہ بینر پڑھا تھا. اور وہ بہت حیران ہوا تھا. کہ آخر کچرا دے کر سونا کیسے مل سکتا ہے۔
اُس وقت تو سراج گاؤں واپس چلا گیا لیکن چند ہی سال بعد اُس کی اپنے ایک کزن شاہد سے فون پر بات ہوئی جس نے بتایا کہ وہ کراچی میں ’کچرے سے سونا‘ بناتا ہے۔
سراج یہ سن کر اُچھل پڑا۔ ’کچرا دو، سونا لو‘ کا بینر اُس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ چند ہی روز بعد ہی وہ اپنے چاچا علی گل کے گھر کراچی میں تھا۔
سیدھے سادھے معصوم سراج کے ذہن میں تصویر یہ تھی کہ وہ کچرا جمع کرے گا، ڈھیر سارا کچرا، اور بدلے میں سونے کی اینٹ وصول کرلے گا، اور اسے توڑ کر برابر برابر تمام گاؤں والوں میں بانٹ دے گا۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا۔
شیر شاہ کی کباڑی مارکیٹ
سراج سے میری ملاقات شیر شاہ کی کباڑی مارکیٹ کی بھول بھلیوں میں ایک گودام میں ہوئی۔ مجھے بھی اسی سونے کی تلاش تھی جس کے خواب دیکھتا ہوا سراج کراچی پہنچا تھا۔
یہیں سراج، اس کے کزن شاہد اور ان کے استاد چاچا سے بات ہوئی۔ لیکن ان کی درخواست پر ان کے فرضی نام استعمال کیے جا رہے ہیں۔ نہ جانے کیوں، لیکن وہ اپنے کام کے معاملے میں حساس تھے اور وہ بھی اتنے کہ انھوں نے تصویر تک نہیں کھینچنے دی اور نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
ہم تو صرف یہ جاننا چاہتے تھے کہ شیر شاہ کی مارکیٹ میں کمپیوٹر کے کچرے سے سونا کیسے نکلتا ہے اور یہ کام ہوتا کیسے ہے۔
کچی سڑک
یہاں تک پہنچنا بھی آسان نہ تھا۔ بہت سی کچی سڑکوں، گوداموں اور ٹوٹے پھوٹے راستوں سے ہوتے ہوئے ایک شٹر والی دکان تھی جس کے اندر ایک کچا پکا وسیع گودام تھا۔ ایک بڑی سی چمنی چھت سے لٹکی ہوئی تھی جس کے نیچے مٹی اور ڈرموں کے مٹیالے چولہے بنے ہوئے تھے۔ ایک اور طرف بہت سے کنستر پڑے تھے اور ان کے برابر جلانے والی لکڑیوں کا ڈھیر۔
اس کاٹھ کباڑ کے ساتھ ہی سینکڑوں رنگ برنگے پلاسٹک کے ٹکڑے ایک انبار کی شکل میں موجود تھے جن میں سے زیادہ تر کا رنگ ہرا اور نیلا تھا۔ پلاسٹک کے یہ ٹکڑے استعمال شدہ کمپیوٹرز کے ’مدر بورڈز‘ تھے۔
یہیں سراج کو پہلی بار علم ہوا کہ کچرے سے سونا کیسے نکلتا ہے۔