
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈارک انرجی نامی ایک پراسرار قوت، جو کائنات کی توسیع کا باعث بنتی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔
یہ دریافت جو ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اس موجودہ نظریے سے متصادم ہے. جسے جزوی طور پر البرٹ آئن سٹائن نے پیش کیا تھا۔
ان نتائج کی تصدیق کے لیے. مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے، لیکن اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں میں جوش و خروش بڑھ رہا ہے۔
کچھ کا خیال ہے کہ وہ فلکیات کی دنیا کی سب سے بڑی دریافتوں میں سے ایک ایسی دریافت کے دہانے پر ہیں- جو کہ ہمیں کائنات کے بارے میں ہماری تفہیم اور نظریے پر بنیادی طور پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
یہاں تک کہ اس مطالعے میں شامل کچھ انتہائی محتاط محققین، جیسے کہ یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر آفر لاہاو، ان نئے شواہد سے متاثر ہوئے ہیں۔
مثالی تبدیلی
انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’یہ ایک ڈرامائی لمحہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کائنات کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ میں ایک مثالی تبدیلی کا مشاہدہ کر رہے ہوں۔‘
1998 میں ڈارک انرجی کی دریافت اپنے آپ میں چونکا دینے والی تھی۔ اس وقت تک یہ نظریہ تھا. کہ کائنات کی تخلیق کی وجہ بننے والے دھماکے ’بگ بینگ‘ کے بعد، کشش ثقل کی قوت کی وجہ سے. اس کا پھیلاؤ سست ہو جائے گا۔
لیکن امریکی اور آسٹریلوی سائنسدانوں کے مشاہدات سے معلوم ہوا. کہ یہ درحقیقت تیز ہو رہا ہے۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اس کے پیچھے کارفرما قوت کیا ہے، لہٰذا انھوں نے اسے ڈارک انرجی کا نام دیا جو ان کی سمجھ کی کمی. کی نشاندہی کرتا ہے۔
ہم نہیں جانتے کہ ڈارک انرجی کیا ہے اور یہ سائنس کے سب سے بڑے رازوں میں سے ایک ہے۔ تاہم ماہرین فلکیات اس کی پیمائش کر سکتے ہیں اور کائنات کی تاریخ کے مختلف مقامات پر ایک دوسرے سے دور کہکشاؤں کی سرعت کا مشاہدہ کر کے جان سکتے ہیں کہ کیا یہ تبدیل ہو رہی ہے۔
پیک نیشنل آبزرویٹری
جوابات تلاش کرنے کے لیے کئی تجربات کیے گئے. جن میں امریکی ریاست ایریزونا کے علاقے ٹیوسوں کے قریب واقع کٹ پیک نیشنل آبزرویٹری میں ڈارک انرجی سپیکٹروسکوپک انسٹرومنٹ (DESI) سے بھی مدد لی گئی جو پانچ ہزار آپٹیکل فائبرز پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر ایک روبوٹ کے ذریعے کنٹرول شدہ ٹیلی سکوپ ہے جو تیز رفتاری سے کہکشاؤں کا جائزہ لیتا ہے۔
پچھلے سال، جب ڈارک انرجی سپیکٹروسکوپک انسٹرومنٹ پر کام کرنے. والے محققین کو یہ اشارے ملے کہ ڈارک انرجی کے. ذریعے استعمال کی جانے والی قوت وقت کے ساتھ بدل گئی ہے، تو بہت سے سائنسدانوں نے سوچا کہ یہ اعداد وشمار میں آنے والا فرق ہے جو دور ہو جائے گا۔
اضافی تجزیے
لیکن ایک برس بعد بجائے دور ہونے کے وہ فرق بڑھ گیا ہے۔
پورٹ سمتھ یونیورسٹی کے پروفیسر شیشادری نداتھور کا کہنا ہے کہ ثبوت اب پہلے سے زیادہ ٹھوس ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے پہلے سال کے مقابلے میں بہت سے اضافی تجزیے بھی کیے ہیں، اور وہ ہمیں یقین دلا رہے ہیں کہ نتائج اس ڈیٹا میں پر نامعلوم اثر سے متاثر نہیں ہوتے ہیں جس کے بارے میں ہم لاعلم ہوں۔‘