پاکستان میں ملٹی کاسٹ ڈراموں کی مقبولیت اب نئی بات نہیں رہی اور ایسے ہی ڈراموں میں حال ہی میں شامل ہونے والا ڈرامہ انگنا ہے۔ یہ ڈرامہ ایک ایسے گھرانے کی کہانی ہے جہاں صرف بیٹیاں ہیں۔
جاوید شیخ اور عتیقہ اوڈھو نے اس ڈرامے میں والدین کا کردار ادا کیا ہے اور رباب ہاشم، اریبہ حبیب، کنول خان اور لائبہ خان ان کی بیٹیوں کے کردار میں نظر آ رہی ہیں۔ اگرچہ نہ تو بیٹیوں پر بننے والا پاکستان کا یہ پہلا ڈرامہ ہے اور نہ اس میں دکھائے جانے والے مسائل نئے ہیں لیکن پھر بھی اپنی عکس بندی، شادیوں اور خاندانی سیاست اور سازش کے مسالحے سے بھرپور یہ ڈرامہ ناظرین میں پسند کیا جا رہا ہے۔
ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والی تین اداکاراؤں کنول خان، اریبہ حبیب اور لائبہ خان نے بی بی سی سے خصوصی بات چیت میں کیمرے کے پیچھے ہونے والے دلچسپ واقعات اور ڈرامہ کے لیے لوگوں کی پسندیدگی کا احوال سُنایا ہے۔
بیٹیوں کے لیے والدین کی سپورٹ
بی بی سی کے لیے براق شبیر سے بات کرتے ہوئے اسی ڈرامے میں نایاب کا کردار ادا کرنے والے اداکارہ لائبہ خان کا کہنا تھا کہ ان کے کردار نے ڈرامے میں شادی کے لیے بھی سٹینڈ لیا اور پھر شوہر کو سزا دلوانے کے لیے بھی۔ ایسے میں اس کے والدین نے اس کا ساتھ دیا۔
ڈرامے میں لائبہ کا کردار بہنوں میں سب سے چھوٹا ہے اور شادی کے بعد انھیں پتا چلتا ہے کہ ان کے شوہر نے دولت کے لالچ میں ان سے شادی کی۔ لائبہ خان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے اب والدین کو یہی کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ چیز ختم کر دینی چاہیے کہ بیٹی گھر سے گئی ہے تو مر کر ہی آئے گی۔‘
اس ڈرامے میں تیسری بہن عائزہ کا کردار ادا کرنے والے اداکارہ کنول خان کہتی ہیں کہ ان کا کردار مثبت ہے، ڈرامے میں ان کی ارینج میرج کروائی جاتی ہے۔
ان کے خیال میں عمومی طور پر ارینج میرج میں کچھ صحیح نہ ہو تو والدین اپنے فیصلوں کو صحیح ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ڈرامے میں یہ بتایا گیا کہ والدین کا فیصلہ بھی صحیح نہیں ہوا اور انھیں لگا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے تو انھوں نے کہا اس پر سٹینڈ لو۔‘
اریبہ کے خیال میں آج کل والدین اور بچوں کے درمیان گفتگو نہیں ہوتی۔ یہی حال میاں بیوی کا ہے۔ ’اگر آپ بات چیت والا حصہ گنوا دیں گے تو میاں بیوی کو ایک دوسرے کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہو گا۔‘
اریبہ حبیب نے بتایا کے اس ڈرامے میں ارینج میرج اور لو میرج دونوں کی ناکامی کی صورت میں والدین نے بیٹیوں کو واپس گھر بلا لیا اور انھیں سپورٹ کیا۔
اس ڈرامہ میں تیسری بہن ابیحہ کا کردار ڈرامے میں بیوہ ہو جاتا ہے۔ یہ کردار ادا کرنے والی اریبہ حبیب کا کہنا تھا کہ ’جب یہ ڈرامہ ہو رہا تھا تو میری اصل میں شادی ہونے والی تھی، مجھے سوچ کر رونا آتا تھا کہ کسی نہ کسی کے ساتھ حقیقت میں ایسا ہوا ہو گا۔ یہ سوچ کر ڈر لگتا تھا۔‘
اس ڈرامے میں چاروں بیٹیوں کو ہی گھر کی اساس دکھایا گیا ہے۔
اداکارہ اریبہ حبیب کا کہنا تھا ’ہم چاروں بہنوں کو گھر کے ستون دکھایا گیا ہے۔ اگرچہ ہمارے معاشرے میں بیٹوں کو اہمیت دی جاتی ہیں جسے ہم بدل نہیں سکتے لیکن ہم یہ کر سکتے ہیں بیٹیوں کو زیادہ تعلیم دے کر انھیں خود مختار کر سکتے ہیں۔‘
اس موقعے پر کنول خان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں ہمیں اپنے لڑکوں کو زیادہ تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ عورت کوئی بھی ہو آپ کو اسے عزت دینی ہے۔ اور ان کے ساتھ کیسا تعلق رکھنا ہے۔‘
اریبہ کا کہنا تھا ’لڑکوں کو سکھائے جانے والی باتیں ہی عجیب ہیں۔ ’میرے والد نے کبھی میرے بھائی کو یہ نہیں کہا تمہیں بہن کو سنبھالنا ہے بڑے ہو کر اس کی شادی کرنی ہے بلکہ انھوں نے کہا تھا کہ بہن کا خیال رکھنا ہے۔‘
’بیٹا بیٹی برابر تب ہیں جب آپ اپنے بیٹے کو بھی یہ بولیں کہ تم رو سکتے ہو، تم بھی ڈانس کر سکتے ہو، لطف اندوز ہو سکتے ہو، تم بھی مذاق کر سکتے ہو، تم بھی زور سے ہنس سکتے ہو۔ تم بھی کھانا بنا سکتے ہو۔‘
اریبہ حبیب کا کہنا تھا کہ ’ہم اس طرح کے ڈرامے بنا کر لوگوں کو سکھا سکتے ہیں۔‘
’مجھے کسی کو تھپڑ نہیں مارنا پڑا‘
اریبہ کا کہنا ہے کہ انھیں ڈرامے میں اپنا کردار ادا کر کے بہت اچھا لگ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب مجھے ڈرامے کی پیش کش ہوئی تو مجھ سے کہا گیا کہ دو کردار ہیں ان میں سے کون سا کرنا ہے، مجھے ایشال اور ابیحہ کے کردار بتائے گئے تو بھی ابیحہ کا کردار بہت پسند آیا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ یہ چیز ہمارے معاشرے میں ہو رہی ہیں لیکن کم ہے۔ ہم اس کے ذریعے ایک اچھا پیغام دے سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس ڈرامے کے آخر میں مصنف اور پروڈیوسر کے ساتھ مل کر کچھ تبدیلیاں بھی کی ہیں۔ جس کے بعد ان کا کردار اور دلچسپ ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان تبدیلیوں کی وجہ یہ ہے کہ بعد میں ناظرین ان سے سوال کرتے ہیں کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ’کیوں تھپڑ کھا لیا یا تھپر مار دیا۔ اب لوگ پکڑتے ہیں کہ کون سا تھپڑ صحیح ہے اور کون سا غلط ہے۔‘
تاہم ان کا ہنستے ہوئے کہنا تھا ’میرا خیال ہے کہ میں نے صحیح کردار چن لیا کہ مجھے کسی کو تھپڑ نہیں مارنا پڑا۔‘
’لوگ کرداروں کے نام سے بلاتے ہیں ‘
ڈرامہ میں چاروں بہنوں کا والدین اور دادی کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ اور تعلق دکھایا گیا ہے۔ اس بارے میں اریبہ کا کہنا تھا ’آف سکرین یہ سب تھا تو آن سکرین آپ ہمیں ایسا دیکھتے تھے۔ ہم سب میں بہت دوستیاں تھیں جن کی جھلک کیمرے پر نظر آئی۔‘
تینوں نوجوان اداکاراؤں کا کہنا تھا کہ سینیئر اداکاروں جاوید شیخ اور عیتیقہ اوڈھو کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بہت اچھا تھا۔ ان کے بقول عتیقہ اوڈھو کی کوشش ہوتی تھی کہ ساری کاسٹ متحرک رہے۔
اداکاراؤں کا کہنا تھا کہ اب تک مداحوں کی جانب سے ڈرامے کا بہت اچھا رد عمل مل رہا ہے۔
ادکارہ کنول خان کا کہنا تھا کہ ’اصل کامیابی کا پتا اس وقت چلتا ہے جب آپ عوام میں جاتے ہیں کسی مال میں۔ لوگ آپ کو آپ کے کردار کے نام سے بلاتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے ، انسٹا گرام کا دور ہے۔ سب آپ کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی جب وہ کنول کے بجائے عائزہ کہتے ہیں تو مطلب انھوں نے آپ کے ساتھ اتنا تعلق بنا لیا ہے کہ آپ اب کنول نہیں عائزہ ہیں۔‘
ڈرامہ انگنا رمضان میں ہفتے کے دو دن نشر کیا گیا جبکہ اب یہ روزانہ نشر کیا جائے گا۔
اداکارہ اریبہ حبیب کا کہنا تھا ’مجھے لگتا تھا کے ہر روز سکرین پر دیکھ کر پتا نہیں لوگوں کو سمجھ آئے گا کہ نہیں۔ لوگوں کو ہر روز ڈرامے میں ایک نیا پہلو پسند آ رہا ہے۔ اچھی بات ہے کہ لوگ ہمیں سکرین پر دیکھ کر انجوائے کر رہے ہیں۔‘
اس ڈرامہ میں نظر آنے والی چاروں بہنوں کی زندگیوں میں ہمہ وقت کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے اس بارے میں اریبہ حبیب کا کہنا تھا بالآخر یہ ڈرامہ ہے اور ناظرین کے لیے تھوڑا مرچ مصالحہ ڈالنا ہی پڑتا ہے۔
لائبہ خان کا کہنا تھا کہ ’حقیقی زندگی میں بھی لوگوں کی زندگیوں میں کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے اور جس گھر میں چار بیٹیاں ہوں گی تو کسی نہ کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ ضرور ہو گا، کسی کا شوہر کے ساتھ ، کسی کا ساس کے ساتھ۔‘
اسی ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران ہی اریبہ کی شادی بھی ہو گئی تھی۔ جس کی وجہ سے انھیں ایک ماہ کی بریک لینی پڑی۔
روزانہ نشر ہونے والے ڈراموں کی عکس بندی بھی روزانہ کی بنیادوں ہوتی رہی۔
بظاہر یہ ڈرامہ خواتین کے کرداروں کے بارے میں ہے لیکن اریبہ حبیب کا کہنا ہے کہ دراصل تو یہ ان لڑکیوں کے والد کا ڈرامہ ہے جو ہر مشکل صورتحال میں بھی خود کو مطمئن رکھ کر حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ بظاہر یہ خواتین کا دور ہے اور اس میں کسی بھی ڈرامے میں خواتین پر فلمائے جانے والے مناظر کی تعداد مردوں کے مناظر سے زیادہ ہیں۔ ایک طرف تینوں اداکارائیں مردوں کے کم مناظر پر ان سے ہمدردی کرتی نظر آئیں تو دوسری طرف خواتین کے سین میں دکھائے جانے والے مناظر پر بھی لطف لیا۔
اریبہ کا ہنستے ہوئے کہنا تھا ’خواتین کو ملنے والے تین سو سینز میں سے بھی سو سین ایسے ہوتے ہیں جن میں اس لڑکی کو روتے ہوئے دکھایا جاتا ہے کبھی کسی دروازے سے لگ کر یا کبھی کسی کھڑکی سے لگ کر۔‘
اس موقعے پر کنول خان کا کہنا تھا ’اس ڈرامے میں ہمارے ساتھ کام کرنے والے لڑکوں نے بھر پور کام کیا ہے۔ کیونکہ پہلے تو ڈرامہ کی توجہ کا مرکز بابا ہیں ان سے ہٹتا ہے تو بیٹیوں پر آ جاتا ہے۔ اس لیے جو مناظر ہیں ان میں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھر پور طریقے سے ایکٹنگ کر کے سامنے آئیں کہ ہم بھی ہیں۔‘
اریبہ حبیب کا کہنا تھا کہ ’جب ہم چھوٹے تھے تو ڈراموں میں ہیرو ہوتے تھے، لڑکیوں کے زیادہ سین نہیں ہوتے تھے۔ پورا ڈرامہ انہی کے گرد گھومتا تھا۔ لڑکے ہینڈسم ہوتے تھے۔ لڑکے اب بھی ہینڈسم ہیں لیکن اب توجہ خواتین پر چلی گئی ہے۔‘