پاکستانی بہو کو زبردستی دوا کھلانے اور مہلک مواد پلانے پر برطانیہ میں شوہر، نند، دیور اور ساس سسر کو قید کی سزائیں

برطانیہ

برطانیہ کی ایک عدالت نے ایک خاتون کو جبری طور پر ذیابیطس کی دوا کھلانے اور مہلک مواد دینے کے الزام میں اُن کے شوہر، دیور، نند اور ساس سسر کو قید کی سزائیں سُنائی ہیں۔

برطانیہ میں لیڈز کراؤن کورٹ نے متاثرہ خاتون کے 31 سالہ شوہر اصغر شیخ کو سات سال اور نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی. جبکہ اب کے 55 سالہ سسر خالد اور 52 سال کی ساس شبنم کو بھی قید. کی سزائیں دی گئیں۔

گذشتہ سال ٹرائل کے دوران خاتون کے شوہر اور ساس سسر پر ایک بالغ خاتون کو جسمانی تکلیف پہنچانے اور ان کی مدد نہ کرنے کا قصور ثابت ہوا تھا۔

اس تشدد کے باعث امبرین فاطمہ شیخ. نامی خاتون کی زندگی بُری طرح متاثر ہوئی۔

استغاثہ کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ 2015 کے دوران امبرین شیخ. کو دھوکہ دے کر ذیابیطس کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوا ’گلمیپریڈ‘ دی گئی۔ اس سے ان کے دماغ کو نقصان پہنچا۔ امبرین کو سنہ .2014 میں ارینج میرج کے بعد پاکستان سے برطانیہ لایا گیا تھا۔

خیال ہے کہ انھیں صفائی کے لیے استعمال ہونے والا سیال مادہ بھی اس وقت زبردستی پلایا گیا. جب وہ ہڈرز فیلڈ پر واقع. کلارا سٹریٹ میں اپنے سسرال کے گھر رہائش پذیر تھیں۔ اس کے بعد اگست 2015 میں انھیں علاج کے لیے ایک ہسپتال داخل کیا گیا۔

شواہد پیش

خاندان کے کسی بھی فرد نے عدالت میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔ جج نے کہا کہ وہ اس بات کا تعین نہیں کر سکیں کہ اس تشدد کا سلسلہ کب شروع ہوا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ امبرین، جن کی عمر اب 39 برس ہے، اِس وقت وہ بے سدھ کیفیت میں ہیں جس سے وہ کبھی بھی صحتیاب نہیں ہو سکیں گی۔

جسٹس لیمبرٹ نے ریمارکس دیے کہ ’اس سے زیادہ سنگین انجری کو تصور کرنا مشکل ہے۔‘

امبرین شیخ کی بیمار ہونے سے قبل اچھی صحت تھی۔ یہ شواہد موجود ہیں. کہ پاکستان میں وہ ایک سکول ٹیچر تھیں۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ وہ برطانیہ آمد سے قبل ’سمجھدار، روشن، پُرجوش اور خوش‘ رہنے والی خاتون تھیں۔

ابتدائی طور پر سمجھا گیا کہ ان کی وفات ہو جائے. گی مگر جب انھوں نے خود سے سانس لینا شروع کیا تو ہسپتال نے انھیں وینٹیلیٹر سے ہٹا دیا۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ انھیں ٹیوب کے ذریعے خوراک دے کر زندہ رکھا گیا ہے. اور بالآخر ان کے ساتھ جو ہوا اس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔

امبرین

’مستقبل چھین لیا گیا‘

عدالت کو بتایا گیا کہ جب امبرین برطانیہ پہنچیں تو خاندان اُن کے گھریلو کام کاج سے ناخوش ہونے لگا۔

جولائی 2015 کے دوران پولیس نے ان کا ویلفیئر چیک کیا. جس سے معلوم ہوا ہے کہ وہ صحت مند اور ٹھیک ہیں۔

جسٹس لیمبرٹ نے کہا کہ وہ اس جائزے کو کم اہمیت دیتی ہیں. کیونکہ امبرین بہت کم انگلش بول سکتی تھیں اور ویلفیئر چیک کے دوران ان کے ہمراہ اُن کے سسر موجود ہوتے تھے۔

انھوں نے مزید کہا کہ امبرین کے بے ہوش ہونے اور خاندان کی جانب سے ایمبولینس بلانے میں دو سے تین دن کا وقفہ تھا۔

انھوں نے کہا یہ خیال غیر حقیقت مندانہ ہے کہ خاندان کو امبرین کی پریشان کن صورتحال کا علم نہیں تھا. اور انھیں فوری طبی امداد کی ضرورت تھی۔

ویسٹ یارک شائر پولیس کے میتھیو ہولڈسورتھ نے کہا کہ ’یہ ایک بدترین مثال ہے. کہ کیسے ایک نوجوان، صحتمند خاتون کو مہلک حالت میں چھوڑ کر اُن لوگوں نے ان سے ان کا مستقبل چھین لیا گیا جن سے ان کے تحفظ کی توقع تھی۔‘

گذشتہ سال ٹرائل کے دوران اصغر، خالد، شبنم اور اصغر کی بہن شگفتہ شیخ ان تمام کو ایک بالغ شخص کو جسمانی نقصان پہچانے پر قصوروار ٹھہرایا گیا۔

اصغر، شبنم اور شگفتہ کو اس الزام میں بھی قصوروار ٹھہرایا گیا کہ انھوں نے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔

اصغر، خالد، شبنم، شگفتہ اور اصغر کے بھائی ثقلین شیخ کو اس الزام میں بھی قصوروار ٹھہرایا گیا. کہ انھوں نے انصاف سے بچنے کے لیے سازش کی۔

25 سالہ ثقلین کو چھ ماہ قید اور دو سال کی معطلی جبکہ 29 سالہ شگفتہ کو 18 ماہ قید اور دو سالہ معطلی کی سزائیں دی گئی ہیں۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.