گذشتہ برس نومبر میں روسی سپریم کورٹ کی جانب سے ایل جی بی ٹی کیو موومنٹ کو شدت پسندانہ نظریہ قرار دینے کے بعد سے روسی حکام نے سیکس پارٹیز کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔
حالیہ مہینوں میں کم و بیش چھ مواقع پر پولیس نے مختلف علاقوں میں نجی اور عوامی سیکس پارٹیز پر چھاپہ مارا ہے۔
ان میں سے کئی تقریبات کا ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
رواں سال فروری میں ماسکو سے 1500 کلومیٹر دور یکاترنبرگ کے ایک نائٹ کلب پر چھاپہ مارا گیا جہاں ’بلیو ویلوٹ‘ نامی سیکس تھیم پارٹی جاری تھی۔ اس پارٹی میں لوگوں نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے نقاب پہنے ہوئے تھے۔
پارٹی منتظمین کے مطابق اس چھاپے کے دوران تقریباً 50 پولیس افسران نے حصہ لیا، جن میں سے اکثر سپیشل سکیورٹی فورس یعنی ایف ایس بی کے ممبران تھے۔
سٹینس لاؤ سلووی کووسکی پارٹی منتظمین میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے تمام افراد. کو نہ صرف ماسک اتارنے پر مجبور کیا بلکہ ان سے ذاتی معلومات بھی پوچھیں۔
سلووی کووسکی کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان سے پوچھا کہ کیا پارٹی میں ہم جنس پرست موجود ہیں۔ ان کے مطابق پولیس نے یہ بھی پوچھا کہ آیا پارٹی میں کوئی منشیات تو استعمال نہیں کر رہا. تاہم اس بات میں پولیس نے زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔
ہم جنس پرستی
تقریباً پچھلی ایک دہائی سے روسی حکام ہم جنس پرستی کو غیر قانونی قرار دینے. اور ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے افراد کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سنہ 2013 میں، روس کی ایوانِ زیریں نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت نام نہاد ’ایل جی بی ٹی کیو پراپیگنڈا‘ پر پابندی عائد کی جائے گی۔
پچھلے سال ایل جی بی ٹی کیو برادری کے خلاف سخت قوانین متعارف کرائے گئے۔
جولائی 2023 میں روس نے جنس کی تفویض کی سرجری، ہامونل تھراپی اور سرکاری دستاویزات میں جنس کی تبدیلی پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اس سے پہلے سنہ 1997 میں ان تمام اقدامات کی اجازت دی گئی تھی۔
نومبر 2023 میں روسی سپریم کورٹ نے ایل جی بی ٹی کیو موومنٹ کو شدت پسند نظریہ قرار دے دیا تھا۔
اور ایل جی بی ٹی کیو کا نام شدت پسند گروہوں. کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔
روس میں ایل جی بی ٹی کیو کی حمایت ایک جرم ہے. جس کی سزا 10سال قید ہو سکتی ہے۔
’پارٹی میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہو رہا تھا‘
سلووی کووسکی نے بی بی سی روس کو بتایا کہ ان کی پارٹی میں کوئی. غیر قانونی کام نہیں کیا جا رہا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی میں شہوت انگیز پرفارمنس اور شدت پسند سیکس (بی ڈی ایس ایم) کے عناصر تھے جن میں پارٹی میں آنے والے افراد حصہ لے رہے تھے۔
ان کے مطابق پارٹی میں آنے والے مہمانوں پر ہمبستری کے لیے کوئی دباؤ نہیں تھا۔
بعد ازاں یکاترنبرگ پولیس کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا. جس میں کہا گیا. کہ سکیورٹی فورسز نے چھاپہ احتیاطی طور پر مارا تھا۔
دمتری چوکریف یکاترنبرگ کے پبلک چیمبر کے ممبر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شخص اس بات کو مسترد نہیں کر سکتا کہ ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی ان پارٹیوں کے بھیس میں اپنے اجتماعات منعقد کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے خلاف کاروائیوں میں اضافے کے باوجود ’یہ لوگ اب بھی غائب نہیں ہوئے ہیں۔‘
چوکریف کہتے ہیں ’ان افراد کو اب بھی تفریح کرنے اور اپنے خیالات کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ بی ڈی ایس ایم کے بھیس میں ایسی تقریبات منعقد کر سکتے ہیں، جو فی الحال ممنوع نہیں ہے۔‘
پچھلی ایک دہائی سے روس کے کئی بڑے شہروں میں سیکس پارٹیاں منعقد کی جا رہی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق کل آبادی کا بہت چھوٹا حصہ ان پارٹیوں میں حصہ لیتا ہے. جن میں سے بیشتر افراد کا تعلق تخلیقی صنعتوں یا آئی ٹی میں ملازمت کرنے والے متوسط طبقے سے ہے۔
ان کا مقصد روسی معاشرے میں لبرل ازم اور رواداری کی علامات کو فروغ دینا تھا۔ تاہم بڑھتے ہوئے قدامت پسند قوانین کی منظوری کے ساتھ، یہ رجحانات اب دن بدن مزید چوری چھپے کیے جا رے ہیں۔
ٹی وی میزبان کی برتھ ڈے پارٹی سے پیدا ہونے والا تنازع
دسمبر میں روسی حکام کی طرف سے اس طرح کی سیکس پارٹیز کے خلاف کارروائی مزید سخت کر دی گئی ہے۔ یہ اس وقت سے ہوا جب ٹی وی میزبان اور سوشل میڈیا انفلوئنسر اناستیسیا آئولیوا کی برتھ ڈے پارٹی میں شرکا کو تقریباً برہنہ رہنے والے ڈریس کوڈ کی تاکید کے ساتھ آنے کا کہا گیا تھا۔
اس پارٹی کو سوشل میڈیا پر سیاسی رنگ دیا گیا۔ اس پارٹی میں شریک ہونے والوں میں متعدد مشہور روسی شخصیات بھی تھیں جن میں کسینیا سوبچیک بھی تھیں، جو روسی صدر ولادیمیر پوتن کے دیرینہ دوست. اور مشیر اناطولے سوبچیک کی بیٹی ہیں۔
اس پارٹی میں مشہور پاپ گلوکار فلپ کرکوروف بھی شریک ہوئے۔
اگرچہ زیادہ تر شرکا ’میشڈ ٹاپس‘ اور لیس دار لنگی پہن کر آئے ہوئے تھے تاہم کچھ شرکا نے اس سے بھی کم لباس پہنا ہوا تھا جس سے جسم کا زیادہ حصہ برہنہ ہی دکھائی دیتا تھا۔ ان شرکا میں ریپر واسیوو بھی شامل تھے جو عضو تناسل پر صرف ایک جراب پہن کر آئے ہوئے تھے۔
تقریب کی تصاویر
جب اس تقریب کی تصاویر کا سوشل میڈیا پر چرچا ہوا. تو بہت سے لوگوں نے اس پر غصے کا اظہار کیا۔
ریپیر واسیوو کو غنڈہ گردی کی پاداش میں 15 برس کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ انھیں اپنے لباس کے لیے دو لاکھ روسی روبیل، یعنی 2154 ڈالر، کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔
اس تقریب کے انعقاد کی پاداش میں آیولیوا پر بھی 1077 ڈالر جرمانہ عائد کیا گیا۔
جب یہ تصاویر روسی صدر پوتن کو دکھائی گئیں تو اس کے بعد اس تقریب کی میزبان اور ان کے مہمانان پر مشکل پڑی۔
کچھ مشہور شخصیات، جو اس تقریب میں شریک ہوئیں، کا کہنا ہے کہ انھوں نے پہلے سے طے شدہ کچھ ٹی وی پروگرام منسوخ کیے جس کی وجہ سے انھیں مقدمات قائم کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
حالیہ انتخابات میں روسی صدر نے روایتی اقدار کو تحفظ دینے کے اپنے بیانیے کو مزید زور و شور سے پیش کیا اور یوں وہ پانچویں دفعہ روس کے صدر منتخب ہو گئے۔