کسینو میں کھانا کھانے کی بات ہو یا ٹریفک وارڈن سے جھگڑا، کلبز اور ڈانس پارٹی میں جانا ہو یا فٹنس کے معاملے میں عدم دلچسپی، غیر ملکی دوروں پر پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی اور بعض اوقات آفیشلز تنازعات کی زد میں آتے رہتے ہیں۔
جب سے سوشل میڈیا کا دور آیا ہے، چھوٹی سے چھوٹی بات بھی چھپ نہیں پاتی۔ کوئی بھی بات ہو، تصویر یا ویڈیو اسے وائرل ہونے اور پھر خبر بن جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
اب کی بار ایسا ہی کچھ محمد حفیظ کے ساتھ ہوا ہے جو کہ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے ڈائریکٹر ہیں۔ دراصل آسٹریلیا کے دورے پر موجود ٹیم تیسرے اور آخری ٹیسٹ میچ کے لیے میلبرن سے سڈنی جا رہی تھی۔
جس فلائٹ سے قومی ٹیم روانہ ہو رہی تھی اس پر بورڈ کرنے میں حفیظ اور ان کی اہلیہ کو دیر ہو گئی۔ وہ دوسری فلائٹ پکڑ کر سڈنی پہنچ تو گئے لیکن یہ بات جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اکثر صارفین اور کرکٹ کے مداحوں کو پسند نہیں آئی۔
ناراضی کی وجہ ان کا فلائٹ مس کرنا نہیں بلکہ اس سے قبل بظاہر ٹیم پر ضابطے کے سخت اصول لاگو کرنے والے محمد حفیظ کا خود اس دوران لاپرواہی برتنا تھا۔
متنازع بیانات
اس کے ساتھ ساتھ حفیظ کی جانب سے دورۂ آسٹریلیا کے دوران پریس کانفرنسز میں متنازع بیانات بھی دی گئے ہیں، جنھیں اکثر مبصرین کی جانب سے غیر ضروری قرار دیا گیا ہے۔
محمد حفیظ کی جانب سے اس سے پہلے کھلاڑیوں کے گراؤنڈ پر سونے کی صورت میں انھوں 500 ڈالر کے جرمانے کی تنبیہ کی تھی۔
پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تیسرا ٹیسٹ تین جنوری کو کھیلا جائے گا۔ آسٹریلیا کو اس سیریز میں دو صفر کی ناقابلِ تسخیر برتری حاصل ہے۔
’فلائٹ مس کرنے سے پاکستانی ٹیم کو فیلڈ پر کوئی نقصان ہو گا؟‘
سوشل میڈیا پر پاکستانی اور انڈین صارفین نے محمد حفیظ پر طنز و مزاح کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ کوئی مزاح کرتا نظر آیا. تو کوئی انھیں ان کے عہدے کی ذمہ داریاں یاد دلاتا رہا۔
کرکٹ ایکسپرٹ نامی ٹوئٹر ہینڈل نے لکھا ’محمد حفیظ بروقت پرواز بھرنے پر فلائٹ کریو سے کافی ناراض ہیں، ورنہ صورت حال الگ ہوتی۔‘
یہ بات دراصل حفیظ کی جانب سے میلبورن ٹیسٹ کے دوران وکٹ کیپر محمد رضوان کے ایک موقع پر متنازع طور پر آؤٹ دیے جانے پر سامنے آنے والے ردِ عمل پر کی گئی تھی جس میں حفیظ نے تھرڈ امپائر اور ٹیکنالوجی کے فیصلے پر تنقید کی تھی۔
اسامہ خلیل نامی صارف نے لکھا کہ ’محمد حفظ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے میلبورن سے سڈنی کی فلائٹ مس کر دی۔ کیا پی سی بی انھیں بھی 500 ڈالر جرمانہ کری گی؟‘
وہیں کچھ صارفین ایسے بھی تھے جو اس بحث کو بے معنی قرار دے رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں کھلاڑیوں کو ڈسپلن کا پابند کرنا ایک الگ اہمیت کا حامل ہے. اور کسی آفیشل سے کوتاہی ہو جانا کرکٹ میچ پر زیادہ اثرانداز نہیں ہوتا۔
فلائٹ مس
انھی میں سے ایک زرق افضل کا کہنا تھا ’فلائٹ مس کرنے سے پاکستانی ٹیم کو فیلڈ پر کوئی نقصان ہو گا؟ کھلاڑیوں کو اگر دن میں نیند آئے گی تو میدان میں کیچ بھی ڈراپ ہوں گے. اور رنز بھی جائیں اور پوری ٹیم کو مورال ڈاؤن ہو گا۔‘
پی سی بی کیا کرے گا؟
کیا واقعی حفیظ نے فلائٹ مس کی کافی پینے کی وجہ سے ہوئی؟ اور کیا اس بارے میں حفیظ سے جواب طلبی ہو گی یا کوئی جرمانہ ہو گا؟
یہ وہ سوال ہے جو لگ بھگ سبھی پوچھ رہے ہیں۔ بی بی سی نے یہی سوال پی سی بی کی میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کی ڈائریکٹر عالیہ رشید سے پوچھا تو انھوں نے سوشل میڈیا پر اس بحث کو بے معنی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’فلائٹ مس ہو جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ یہ کسی بھی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ کوئی فرد باتھ روم میں ہو سکتا ہے یا کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے۔ کافی پینے کی وجہ سے فلائٹ مس نہیں ہوتی۔ لیکن یہ ایسی چیز نہیں جس پر جرمانہ ہو۔ کیونکہ وہ عادتاً ایسا نہیں کر رہے. کہ ہر بار ہی ایسا کر کے قانون توڑ رہے ہوں۔ اور حفیظ ایک انتہائی ذمہ دار انسان ہیں۔‘
انسانی غلطی یا مِس ججمنٹ
انھوں نے کہا کہ فلائٹ مس کرنے کو ’ہم انسانی غلطی یا مِس ججمنٹ کہہ سکتے ہیں۔‘
عالیہ رشید نے حال ہی میں کھلاڑیوں پر سختی کے ضوابط لاگو کیے جانے کی تفصیلات تو نہیں بتائیں. تاہم انھوں نے کہا کہ ’ہم دو باتوں کو کنفیوز نہیں کر سکتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کھلاڑیوں کو ڈسپلن کرنا ضروری ہے کیونکہ میچ کے دوران اگر وہ سو جائیں گے. تو انھیں جگانا ایک الگ کام ہے۔ میچ کے دوران کون سوتا ہے؟‘
عالیہ نے وضاحت کی کہ ’کیونکہ لڑکے رات کو جاگتے ہیں یا سوشل میڈیا پر رہتے ہیں یا پھر فیملیز کے ساتھ گھوم رہے ہوتے ہیں تو اس لیے انھیں پابند کرنا پڑتا ہے۔ یہ یقیناً ایک ڈسپلنری معاملہ ہے اور یہ ایک بالکل مختلف بات ہے۔‘
سوشل میڈیا پر بحث چھیڑنے کے عمل کو بے معنی قرار دیتے ہوئے. انھوں نے کہا کہ یہ یقیناً ایسے کھلاڑیوں اور لوگوں کی جانب سے کیا جاتا ہے جو محمد حفیظ کی جانب سے ضوابط کی سختی سے نالاں ہیں۔
خیال رہے کہ ڈریسنگ میں اس جرمانے کے حوالے سے میلبرن ٹیسٹ کے بعد بھی حفیظ سے سوال پوچھا گیا تھا. جس پر انھوں نے کہا تھا کہ ’کسی کو بھی اپنی سرکاری نوکری کے دوران سونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، جس دوران آپ ٹیسٹ یا ون ڈے کرکٹ کھیل رہے ہوتے ہیں تو یہ آپ کی سرکاری ڈیوٹی کا حصہ ہوتے ہیں. اس لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ اس دوران سوئیں۔
’اسی طرح اگر کوئی صحافی ڈیوٹی کے دوران سوئے گا. تو وہ سوال کیسے پوچھے گا۔‘