’سنگ ماہ‘ کا اگر ایک لفظ میں تعارف مقصود ہو تو کہا جا سکتا ہے جمالیات۔
جی ہر طرح کی جمالیات سے بھرپور ڈراما ہے۔ موسیقی ہے تو دل کو چھو لیتی ہے، کہانی ہے تو بنت کے ہر پیمانے پہ مونتاج ہے۔ عکس بندی ہے تو نظاروں پہ نظر نہیں ٹھہرتی۔ کردار ہیں تو بصارت میں رقص کرتے ہیں، آنکھوں سے اداکاری کے رنگ کم کم ملتے ہیں۔ یہاں یہ رنگ چھائے ہوئے ہیں، جملے تو بہت ہی شاعرانہ ہیں اور شاعرانہ نثر کا جادو کہاں نہیں چلتا۔
آج ہم تاریخی پس منظر میں کہانی کی بات نہیں کریں گے، وہ پھر کبھی کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، جب جمالیات کا سحرطاری ہو تو کچھ سجھائی کہاں دیتا ہے۔ بس ایسا ہی کچھ حال احوال کسی باذوق سے انسان کا اس ڈرامے کو دیکھ کر ہو سکتا ہے۔
عاطف اسلم بطور اداکار شاید پہلی بار سکرین پہ آئے ہیں لیکن کردار کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ نعمان اعجاز تو کردار میں اتنا ڈوب جاتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے جیسے کردار انہی کے لیے لکھا گیا تھا اور پھر اپنے ہی بیٹے کے ساتھ۔ کیا موروثیت ہے، کمال است!
ثانیہ سعید نے کیا کمال کیا ہے کہ لفظ کم پڑ رہے ہیں۔ سمیہ ممتاز، ہانیہ عامر، کبریٰ خان اور عمیر رانا بھی اپنے کرداروں میں خوب جچ رہے ہیں۔
یہ تو رہی ہم پہ ہوئی جادو گری کی بات۔ اب بات کرتے ہیں کہانی کا بنیادی تھیم کیا ہے۔
ڈراما پٹھان قبیلے کی ایک رسم ’غگ‘ پہ مبنی ہے، جو اس رسم کے جائز ناجائز استعمال اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بے شمار سماجی مسائل پہ مبنی کہانی بنی گئی ہے، لیکن سب سے اہم بات یہ کہ نہ تو یہ سب پٹھان قبائل کی رسم ہے نہ ڈراما پوری پٹھان برادری کا نمائندہ ہے۔ چند قبائل کی مخصوص رسم چند علاقوں میں ہے جوکافی حد معدوم ہوتی جا رہی ہے۔
دوم وکی پیڈیا بتا رہا ہے کہ یہ ڈراما ولیم شیکسپیئر کے مشہور زمانہ ڈراما ’ہیملٹ‘ سے ماخوذ یا متاثر ہے۔ اب تو بات اور بھی آسان ہو جاتی ہے۔
ڈراما ’سنگ ماہ‘ میں نعمان اعجاز کے بیٹے زاویار نعمان اور ہانیہ عامر نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں (فوٹو: سنگ ماہ فیس بک پیج)
’غگ‘ میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ اگر کوئی مرد کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے تو اس کے گھر کے باہر جا کے فائرنگ کر دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس لڑکی کے گھر کوئی اور رشتہ نہیں بھیج سکتا، ورنہ خون خرابہ ہو گا۔ فائرنگ کو اسی کی دھمکی سمجھ لیں۔
بعض اوقات اپنی دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ اگر خاندانی جائیداد کی تقسیم کے مسائل ہیں تو بھی ایسا کیا جاتا ہے لیکن جرگہ اگر فیصلہ کر دے تو سزا اور معاوضے کی ادائیگی سے اس لڑکی کو غگ سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔
لیکن ’سنگِ ماہ‘ میں جو کہانی دکھائی گئی ہے اس کی جمالیات بہت وسیع ہیں۔ غگ جیسی ظالمانہ رسم کے باوجود عورت مظلوم نہیں دکھائی گئی، نہ ہی عورت کو مضبوط دکھانے کے لیے مرد کے فطری کردار کو کمزور کیا گیا ہے۔ دونوں اپنے فطری حسن میں بہت قوی دکھائے گئے ہیں۔ ساتھ مل کر ایک ہونے والے فطرت میں گندھے کردار ہیں۔
مصنف مصطفیٰ آفریدی کی کہانی پر مکمل گرفت ہے۔ کہانی ایسے پرت در پرت کھل رہی ہے کہ حیرانیاں محو حیرت ہو جاتی ہیں۔
مکالمے بہت وزنی ہیں، مگر زندگی کا حاصل ہیں جو ذرا زور سے لگتے ہیں۔ پہاڑوں کی کہانی میں جملے بھی پتھروں و چشموں جیسے ہی کیوں نہ ہوں۔
کردار بتاتے ہیں کہ انسان جتنا جلد عملی زندگی میں قدم رکھ لے اتنا ہی اچھا ہے، خواب عذاب نہیں بنتے اور زندگی کو برتنے کا فن بھی جلد آ جاتا ہے۔
پالنے میں پوت بتا رہا ہے کہ ایوارڈ ملنے کا امکان کافی ہیں۔
کچھ پٹھان بہن بھائیوں کا سوشل میڈیا پیغام ہے کہ ان کی تہذہب کو غلط انداز سے پیش کیا جا رہا ہے، لیکن بات یوں ہے کہ بات ہو گی تو بات آگے بڑھے گی۔ آئیں مل کر اس پہ بات کرتے ہیں کہ کمی کہاں ہے اور درست کیسے ہو سکتی ہے۔
اس کے باوجود کوئی اس بات سے تو انکار نہیں کر سکتا کہ اس میں پیغام محبت، امن اور احترام انسانیت کا دیا گیا ہے جس کی ہمیں اس وقت اشد ضرورت ہے۔ ایسے میں زیب داستاں کے لیے کچھ پھول اگر ٹانک بھی دیے جائیں تو دیے سے دیا جلتا ہے۔
جوں جوں کہانی آگے بڑھی ہے توں توں ناممکنات کی کچھ منازل طے کی ہیں، لیکن یہ آنے والے وقت میں سنگ بنیاد بنے گا، جیسے بچپن یا اوائل جوانی میں بچوں کے ساتھ خاندان میں ہی جنسی زیادتی کا نشانہ بن جانا جو وہ عمر بھر کسی کو نہ تو بتا سکتے ہیں، نہ ہی اس کے اثرات سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں۔
بہرحال ڈراما جھوٹی اناؤں کے بوجھ کا وزن اور انسان کے اس پہ ہونے والے اثرات سے ثابت کرنے میں کامیاب دکھائی دیتا ہے کہ زندگی اس لیے تو نہیں ملی تھی کہ اس کو نفرت میں کاٹ کر آخری عمر میں پچھتاتے ہوئے دنیا سے چلے جائیں۔ دنیا کے بوجھ دنیا میں ہی اتار دینے چاہییں۔
شاہ بابا اور ہلمند درویش نما کردار ہیں لہٰذا یہ زندگی کا وہی فلسفہ بولتے ہیں جو کبھی اشفاق احمد صاحب کے کردار بولا کرتے تھے، لہٰذا یہ ڈراما ان لوگوں کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے جو کہتے تھے کہ آج کے دور میں اس جیسا ڈراما نہیں چل سکتا۔
لہٰذا ہم نے ڈراما کو زندگی سے الگ کرکے ایک صعنت بنایا لیکن کیا کیجیے کہ صنعت کو بھی خام زمین سے ہی لینا پڑتا ہے۔ ویسے بھی خیر کے بنا بندا شر میں جی نہیں سکتا۔
خیر نے دنیا کا بوجھ اپنے کاندھوں پہ اٹھا رکھا ہے۔ شر کو خیر سے یہی تو حسد ہے۔