مارچ کے آخر میں یوکرین کے دارلحکومت کیئو سے روسی فوجیوں کو پیچھے دھکیلے جانے کے بعد سے بوچّا کے خطے میں ایک ہزار سے زیادہ عام شہریوں کی لاشیں ملی ہیں، جن میں سے بہت سوں کو جلد بازی میں کم گہری قبروں میں دفنا دیا گیا تھا۔ بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ تقریباً 650 افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔ نمائندہ بی بی سی سارہ رینسفورڈ نے بچوں کے ایک سمر کیمپ کے بارے میں تحقیقات کی ہیں جسے اب جرم کے ارتکاب کی جگہ قرار دے دیا گیا ہے۔
ممکن ہے کہ پہلی نظر میں اس جائے وقوعہ کی طرف نظر نہ جائے۔ مگر بوچّا کے جنگل کے کنارے پر واقع ایک تہہ خانے میں، جو جنگ سے قبل خاصی مقبول جگہ تھی، پانچ یوکرینی شہریوں کو گھٹنوں کے بل بیٹھا کر ان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں۔
داخلی دروازے کے دائیں جانب پتھروں پر خون کے گہرے سرخ نشان ہیں۔ ان کے درمیان میں ایک نیلے رنگ کا اونی ہیٹ پڑا ہوا ہے جس کے ایک جانب گولی نکلنے کا سوراخ ہے اور ہیٹ کا کنارہ خون آلود ہے۔ دیوار پر میں نے گولیوں کے کم سے کم ایک درجن نشان دیکھے۔
چند قدم دور روسی فوج کے راشن کے پیکٹ پڑے ہوئے ہیں۔ دیوار پر تصاویر بتاتی ہیں کہ یہ بچوں کا کیمپ تھا۔ مگر جب مارچ کے اوائل میں روسی فوجی دارالحکومت کے باہر واقع بوچّا کے علاقے میں داخل ہوئے تو یہ کیمپ قتل گاہ بن گیا۔
اس کیمپ میں ہلاکتوں کی کہانی لرزہ خیز ہے۔ روسی قبضے کے تقریباً ایک ماہ کے اندر ایک ہزار سے زیادہ عام شہریوں کو یہاں ہلاک کیا گیا، مگر ان کی اکثریت بمباری سے نہیں مری بلکہ ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق 650 سے زیادہ افراد کو روسی فوجیوں نے براہ راست گولی مار کر ہلاک کیا۔
اب یوکرین ان کے قاتلوں کو ڈھونڈ رہا ہے۔
جب یوکرین کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے روسی فورسز یہاں پہنچیں اس وقت ولادیمیر بوئچینکو ایئرفیلڈ کے قریب ہی رہتے تھے۔ ان کی بہن ایلیونا مائکائتیوک نے جنگ شروع ہونے سے پہلے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ چلنے کے لیے ولادیمیر کی بھی منت کی۔ وہ فوجی نہیں بلکہ سولین تھے مگر انھوں نے رکنے اور لوگوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔
وہ روسی فضائیہ کے متواتر حملوں کی وجہ سے وہاں پھنسے ہوئے محلہ داروں کے لیے کھانا اور پانی فراہم کرنے کی غرض سے علاقے میں گھومتے رہے۔
ان کی عمر 34 برس تھی اور مرچنٹ نیوی میں ہونے کی وجہ سے انھوں نے دنیا دیکھ رکھی تھی۔ وہ اپنے گھر والوں کو تقریباً روزانہ ہی اپنی خیریت کی خبر دیتے تھے۔ ایلیونا بے چینی سے ان کے فون کا انتظار کرتی تھیں۔ جب کھانے پینے کی اشیا کی قلت پیدا ہوئی تو انھوں نے اپنے بھائی پر زور دیا کہ وہ وہاں سے نکل جائے مگر اس وقت تک راستے بند ہو چکے تھے۔
ان سے ایلیونا کی آخری مرتبہ بات 8 مارچ کو ہوئی۔ ایلیونا نے سسکیاں لیتے ہوئے بتایا، ’اس نے کہا کہ میں تمھیں بہت چاہتا ہوں۔ یہ سُن کر مجھے اور بھی تکلیف ہوئی۔ اس کی آواز میں خوف تھا۔‘
چار دن کے بعد پڑوسیوں نے ولادیمیر کو کیمپ ریڈیئنٹ کے پاس دیکھا اور پھر وہ لاپتہ ہو گئے۔
مارچ میں کیئو میں شدید لڑائی جاری تھی اور بوچّا کا قصبہ اس کا مرکز تھا۔ اوائل اپریل میں روسی فوج کے انخلا کے بعد یہاں کے مناظر نے دنیا کو صدمے سے دوچار کر دیا تھا۔ سڑکوں پر شہریوں کی لاشیں پڑی تھیں جنھیں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
ماسکو کا دعوٰی ہے کہ ہلاکتوں کا ناٹک رچایا گیا تھا۔ یہ گمراہ کن جھوٹ ہے۔ یوکرینی حکام ان ہلاکتوں کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اپنے کنٹرول میں آنے والے علاقے میں شہادتیں جمع کر رہے ہیں۔
کیئو کے ریجنل پولیس چیف آندرے نائبیتو کہتے ہیں، ’ہمیں پوتن کے ارادوں کا علم نہیں ہے، ہم ہر ممکن تیزی سے کام کر رہے ہیں کہ کہیں وہ ثبوت مٹانے کے لیے بمباری نہ کر دے۔‘
شہادتوں میں شہریوں کی وہ کاریں شامل ہیں جن میں جگہ جگہ گولیوں کے نشان ہیں، اب انھیں بوچا میں یکجا کر دیا گیا ہے۔ یہ وہ کاریں ہیں جن میں لوگ اپنے اہلخانہ کے ساتھ وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک گاڑی کی کھڑکی میں اب بھی سفید رنگ کا کپڑا لٹکا ہوا ہے تاکہ فوجیوں کو باور کروایا جا سکے کہ کار میں موجود سوار افراد ان کے لیے کسی طرح کا خطرہ نہیں ہیں۔ ذرا سے قریب جائیں تو موت کی بُو آپ کے نتھنوں سے ٹکراتی ہے۔
جب 4 اپریل کو کیمپ ریڈیئنٹ کے نیچے سے لاشیں نکالی گئی تو ولادیمیر بوئچینکو کی لاش بھی ان میں موجود تھی۔ ایلیونا ہفتوں ہسپتالوں اور سرد خانوں کو فون کرتی رہیں۔ اس روز انھیں شناخت کے لیے ایک تصویر بھیجی گئی۔ تصویر ڈاؤن لوڈ ہونے سے پہلے ہی انھیں احساس ہو گیا تھا کہ یہ ان کے بھائی کی تصویر ہے۔
ایلیونا نے روتے ہوئے کہا، ’میرے جسم کا رُواں رُواں ان سے نفرت کرتا ہے۔ میں جانتی ہوں کے انسانوں کے بارے یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے، مگر وہ انسان نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جس پر تشدد کا نشان نہ ہو۔‘
پانچ افراد گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے تھے، ان کے سر نیچے تھے اور ہاتھ کمر کے پیچھے بندھے ہوئے تھے۔
پولیس چیف نے بی بی سی کو بتایا، ’ہم جانتے ہیں کہ ان پر تشدد کیا گیا ہے۔ روسی فوج نے جنگی ضابطوں سے تجاوز کیا ہے۔ وہ یوکرین میں فوج سے نہیں لڑ رہی تھی بلکہ عام شہریوں کے اغوا اور ایذا رسانی میں ملوث تھی۔‘
تحقیقات کی تفصیل کو تو راز میں رکھا جا رہا ہے مگر بعض روسی فوجی اتنے غیر محتاط تھے کہ انھوں نے سراغ مٹانے کی بھی زحمت نہیں کی اور اب ان کی مدد سے ان تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یوکرینی دفاعی یونٹوں کو بعض جگہوں سے فوجیوں کی فہرستیں بھی ملی ہیں۔ ایک میں ڈیوٹی کی تفصیل ہے، ایک اور میں پاسپورٹ کی تفصیلات اور فون نمبر درج ہیں۔
اس قدر تفصیلات کی بنیاد پر اب تک جنگی جرائم کے 11 ہزار کیس رجسٹر کر لیے گئے ہیں۔ یوکرینی سکیورٹی سروسز نے جدید ڈیجیٹل سہولیات سے واقف شہریوں سے مدد کی اپیل کی ہے۔
دمتری ریپلیانچُک ایک مقامی جرنلسٹ ہیں جو جنگ سے پہلے یوکرین میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پائی جانے والی بدعنوانی کے بارے میں رپورٹنگ کرتے تھے۔ اب وہ انٹرنیٹ کی مدد سے جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو ڈھونڈنے میں یوکرینی تفتیش کاروں کی مدد کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا، ’میں اسے اپنا فرض سمجھتا ہوں۔‘
’میں جانتا ہوں کہ یہ مشکل کام ہے اور بہت سے کیسوں کا حل نہیں نکل پائے گا۔ اس وقت اہم یہ ہے کہ جتنی معلومات مل سکیں انھیں یکجا کر لیا جائے۔‘
ریڈیئنٹ کیمپ کے کوڑے میں ہمیں ایک اہم سراغ ملا ہے۔ یہ ایک پارسل کا لفافہ ہے جسے کسییوخا نامی کسی عورت نے ایک روسی فوجی کو بھیجا تھا۔ اس فوجی کا نام اور فوجی یونٹ اس پر صاف صاف لکھا ہوا ہے۔ یونٹ 6720 سائبیریا کے التائی ریجن میں ربسوسک کے علاقے میں واقع ہے۔ اس کا تعلق بوچا میں اس وقت سے ہے جب سی سی ٹی وی پر فوجی یوکرینی گھروں سے لوٹے ہوئے مال کے بڑے بڑے پیکٹ اپنے رشتہ داروں کو بھیجتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ربسوسک سے تعلق رکھنے والے فوجی بچوں کے کیمپ میں مقیم تھے یا وہ اس وقت وہاں پر تھے جب لوگوں کو قتل کیا جا رہا تھا۔ پولیس کو پہلے لوگوں کی ہلاکت کے صحیح وقت کا تعین کرنا ہے۔
نیابیتو کہتے ہیں، ’ہم اس پر کام کر رہے ہیں، یہ جلدی میں نہیں ہو سکتا۔ مگر یہ کیمپ ایک ہیڈکوارٹر تھا جس کا مطلب ہے کہ یہاں کوئی کمانڈر بھی ہو گا۔ فوجیوں نے کمانڈر کے علم میں لائے بغیر کسی کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا ہو گا۔ اس لیے ہمیں پہلے حکم دینے والوں کا پتہ لگانا ہے اور اس کے بعد عمل درآمد کرنے والوں کا۔‘
کیمپ ریڈیئنٹ کے سامنے بمباری سے تباہ شدہ ایک چرچ کے عقب میں نئی زندگی کے کچھ آثار نمودار ہو رہے ہیں۔ بچے صحن میں دوڑ رہے ہیں جبکہ ایک شخص ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں میں تختے لگا رہا ہے۔ جبکہ ایک دکان بھی کھل گئی ہے جو قصبے میں واپس آنے والوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
محلے والے ایک دوسرے کو دیکھ کر رک جاتے ہیں اور اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب روسی ٹینک ان کے علاقے میں آئے تھے، جب روسی فوجی اندھا دھند گولیاں چلاتے، نشے میں دھت گلیوں میں دندناتے پھرتے، گھروں میں گھس کر لوٹ مار کرتے۔ انھیں وہ شخص بھی یاد ہے جو سمر کیمپ سے فرار ہو کر ان کے فلیٹوں کی جانب آیا تھا اور خطرات کے باوجود انھوں نے اسے پناہ دی تھی۔
وِکٹر سائتنائسکی کو کیمپ ریڈیئنٹ کا پہلے پتہ نہیں تھا، مگر وہ جو تفصیلات بیان کرتے ہیں وہ بہت ملتی جلتی ہیں۔ وہ اب مغربی یوکرین میں ہیں اور مجھے اپنی کہانی فون پر سُنائی۔ انھوں نے اپنی کار میں سے بات کی تاکہ ان کی ماں رنجیدہ نہ ہو جائے۔
یہ مارچ کے شروع کی بات ہے جب روسی فوجیوں نے وکٹر کو سڑک پر سے پکڑا۔ ان کے ہاتھ باندھ دیے اور آنکھوں پر ٹوپی سرکا کر رکھ دی، پھر گھسیٹتے ہوئے ایک تہہ خانے میں لے گئے جو ان کے خیال میں بچوں کے کیمپ میں تھا۔
وہاں روسیوں نے ان کی ٹانگوں پر پانی انڈیلا تاکہ وہ جم جائیں، اور ان کے سر پر بندوق رکھ دی۔
وکٹر نے بتایا، ’وہ پوچھتے رہے، فاشسٹ کہاں پر ہیں؟ فوجی کہاں پر ہیں؟ زیلنسکی کہاں ہیں؟ کسی نے پوتن کا نام لیا تو میں نے گالی دی، جس پر اس نے مجھے مارا۔‘
انھیں اپنے اغواکاروں پر غصہ بھی تھا اور وہ ان سے خوفزدہ بھی تھے۔ انھوں نے ماضی میں ماسکو میں سائبریا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ کام کیا تھا اور اب خوفزدہ تھے کہ روسی ان سے بہت برا برتاؤ کریں گے۔ خاص طور پر جب ایک فوجی نے کہا کہ اس کا تعلق سائبیریا سے ہے۔
وکٹر نے اس سے کہا کہ انھیں افسوس ہے کہ حالات اس نہج پر پہنچ گئے۔
روسی نے غصے سے جواب دیا، ’افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے دادا مل کر نازیوں کے خلاف لڑے تھے اور اب تم فاشسٹوں کا ساتھ دے رہے ہو۔‘
’اس نے مجھے سے کہا کہ تمھارے پاس صبح تک کا وقت ہے وہ سب کچھ یاد کرنے کے لیے جو تم نے دیکھا ہے، وگرنہ تمھیں گولی مار دی جائے گی۔‘
اس رات وکٹر کی قسمت اچھی نکلی۔ وہاں کافی شدید گولہ باری ہوئی اور جب انھیں احساس ہوا کہ اغواکار موجود نہیں ہیں تو وہ وہاں سے جان بچا کر بھاگ نکلے۔
’میں نے اندازہ کر لیا تھا کہ تہہ خانے کے مقابلے میں میں گولہ باری میں زیادہ محفوظ ہوں۔ وہ میرے سر پر بندوق تو تان چکے تھے۔ لبلبی دبانے میں کیا شے مانع ہو سکتی تھی؟‘
ولادمیر بوئچینکو کی لاش بچوں کے کیمپ کے نیچے موجود اجتماعی قبر سے نکال کر اب بوچا کہ پرانے قبرستان میں چیری بلوسم کے ایک پیڑ کے نیچے رسمی طریقے سے دفنا دی گئی ہے۔
تدفین کے بعد ایلیونا کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے بھائی کو خواب میں دیکھا جیسے وہ انھیں تسلی دے رہا ہو۔
مگر اب بھی ان کے ذہن میں کئی سوال ہیں۔ ولادمیر کی قبر کے کتبے پر صرف ان کی تاریخ پیدائش درج ہے کیونکہ ان کے گھروالے نہیں جانتے کہ انھیں کس دن گولی ماری گئی تھی۔
اس کا جواب انھیں اس وقت تک نہیں ملے گا جب تک کہ وہ کمانڈر نہیں مل جاتا جس نے کیمپ ریڈیئنٹ پر قبضہ کیا تھا۔
مگر بوچّا کے دوسرے رہائشیوں کی طرح وہ یہ بات جانتے ہیں کہ اس جنگ میں عام شہری محض پھنس کر نہیں رہ گئے تھے بلکہ روسی فوجی، جو یا تو جنگ کے قواعد سے ناواقف تھے یا ان کی پروا نہیں کرتے تھے، انھیں تاک تاک کر نشانہ بنا رہے تھے۔