فرض کریں آپ انڈیا میں انتہائی کم تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔ اور آپ کو ایک دن کے لیے کسی بالی وڈ فلم میں بطور ایکسٹرا کام کرنے کی پیشکش ہو۔ آپ کا کام؟ ایک جگہ جا کر پیسے نکلوانا۔
2018 میں مہاراشٹرا کے متعدد لوگوں کو لگا۔ کہ ان کو ایسے ہی کسی فلم میں کام کا موقع ملا ہے۔ لیکن دراصل ان کو دھوکہ دیا جا رہا تھا۔ اور وہ ایک عالمی چوری کا حصہ بن رہے تھے۔
یہ اگست 2018 کی بات ہے۔ جب کوسموس کوآپریٹیو بینک کے سٹاف کو، جس کا ہیڈ کوارٹر پونے میں ہے، اتوار کے دن متعدد پیغامات وصول ہونا شروع ہوئے۔
یہ پیغام امریکہ میں ویزا کارڈ کمپنی کی جانب سے تھے جس میں خبردار کیا جا رہا تھا کہ اے ٹی ایم سے بڑی تعداد میں رقم نکلوائی جا رہی ہے اور یہ کام کوسموس بینک کے اے ٹی ایم کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔
لیکن جب بینک سٹاف نے اپنا سسٹم چیک کیا تو ان کو کوئی غیر معمولی ٹرازیکشن نظر نہیں آئی۔
تاہم آدھے گھنٹے بعد بینک سٹاف نے احتیاطا ویزا کمپنی کو اختیار دے دیا کہ وہ کوسموس کے بینک کارڈ سے ہر قسم کی ٹرانزیکشن روک دیں۔ آدھے گھنٹے کی یہ تاخیر انتہائی مہنگی ثابت ہوئی۔
اگلے دن جب ویزا کمپنی نے کوسموس بینک کو تمام ٹرانزیکشنز کی تفصیلات دیں تو دنیا بھر میں مختلف اے ٹی ایم سے 12 ہزار ٹرانزیکشن ہو چکی تھیں۔
بينک فراڈ
بینک 14 ملین ڈالر کھو چکا تھا۔ یہ ایک بے باک جرم تھا جس میں مجرموں نے امریکہ۔ برطانیہ، متحدہ عرب امارات اور روس سمیت 28 ممالک میں ایک ساتھ کارروائی کی اور یہ سب کچھ دو گھنٹوں اور 13 منٹ میں ہوا۔
طویل تفتیش کے بعد تفتیش کاروں نے اس جرم کے پیچھے ایک پراسرار ہیکرز کے گروہ کی نشان دہی۔ کی جو اس سے قبل شمالی کوریا کی حکومت کی ایما پر کامیابی سے مختلف ملتے جلتے جرائم کر چکے تھے۔
اس سے قبل کے مہاراشٹرا کے حکام کو مکمل تصویر معلوم ہوتی، ان کو ایک سی سی ٹی وی فوٹیج ملی جس میں درجنوں افراد مختلف بینکوں میں اے ٹی ایم سے نوٹ نکالتے اور بیگ میں بھرتے نظر آئے۔
انسپکٹر جنرل پولیس برجیش سنگھ۔ جنھوں نے اس تفتیش کی سر براہی کی، کہتے ہیں۔ کہ ’ہم اس طرح پیسے ڈھونے والے نیٹ ورک سے ناواقف تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ایک گینگ کا ہینڈلر لیپ ٹاپ پر اے ٹی ایم سے ٹرانزیکشن کا جائزہ لے رہا ہوتا تھا۔ اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتہ چلا کہ جب کوئی شخص پیسے خود رکھنے کی کوشش کرتا تو ہینڈلر اس کو پکڑ لیتا تھا۔
سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے انڈیا کی پولیس نے 18 ملزمان کو حراست میں لے لیا جن میں سے اکثریت اب جیل میں ہے۔
برجیس سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ عادی مجرم نہیں ہیں۔ بلکہ ان میں سے ایک ویٹر، ایک ڈرائیور اور ایک موچی ہے۔ ایک ملزم کے پاس فارمیسی کی ڈگری بھی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ عام لوگ تھے۔‘
ہیکرز، شمالی کوریا اور اربوں ڈالر
شمالی کوریا دنیا کے غریب ممالک میں شمار ہوتا ہے تاہم اس کے محدود وسائل کا ایک بڑا حصہ جوہری ہتھیاروں اور میزائل پر لگ جاتا ہے حالانکہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جانب سے اس پر پابندی عائد ہے۔
اسی وجہ سے اقوام متحدہ نے شمالی کوریا پر متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
11 سال قبل اقتدار سنبھالنے والے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان اس کے باوجود متعدد ٹیسٹ کر چکے ہیں۔
’لازارس گروپ‘
امریکی حکام کا ماننا ہے کہ شمالی کوریا کی حکومت ہیکرز کے ایک گروہ کے ذریعے بینکوں۔ اور مالیاتی اداروں سے پیسہ چرا رہی ہے۔ تاکہ اپنی معیشت اور ہتھیاروں کے پروگرام کو چلا سکے۔
ہیکرز کے اس گروہ کا نام ’لازارس گروپ‘ ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے۔ کہ ان کا تعلق شمالی کوریا کی طاقت ور خفیہ ایجنسی کے ایک یونٹ سے ہے۔
سائبر ماہرین نے اس گروپ کو یہ نام بائبل کے لازارس کی وجہ سے دیا ہے۔ جو موت کے بعد زندہ ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ ان گروپ کے وائرس جب ایک بار کسی کمپیوٹر نیٹ۔ ورک میں داخل ہو جاتے ہیں تو ان کو ختم کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
Ali
Ali ansar shah