انقلابی کارکن
’میں نے عوام کے مفاد میں بینک لوٹے، مگر آپ اسے چوری نہیں کہہ سکتے کیوںکہ کسی غریب شخص کو لوٹنا چوری کہلاتا ہے۔ وہ شخص جو کسی لٹیرے کو لوٹتا ہے، اسے ہمیشہ کی معافی ہے اور بینک لوٹنا تو اعزاز کی بات ہے۔‘
لوسیو ارٹوبیا کے لیے ڈکیتی ایک ’انقلابی استعارہ‘ تھا مگر اس وقت تک یہ کام ’اجتماعی بھلائی‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے نہ کہ اپنی ذات کے لیے۔ لوسیو وہ شخص ہیں جنھوں نے دنیا کے سب سے بڑے بینک کو تگنی کا ناچ نچوا دیا تھا۔
ایک اچھے انارکسٹ (انتشار پھیلانے والا) کے طور پر لوسیو ارٹوبیا کے لیے قانون اور اخلاقیات کے درمیان موجود فرق بہت مبہم تھا۔
قيادت
دن کے اوقات میں بطور مزدور کام کرنے والے لوسیو رات کو بڑے جعلساز کا روپ دھار لیتے تھے، وہ ناخواندہ تھے اور اپنی زندگی کے آخیر وقت تک ’باغی‘ رہے۔ ایک ڈاکو، مبینہ اغوا کار اور سمگلر کے طور پر معروف لوسیو ارٹوبیا 1980 کی دہائی میں دنیا کو مطلوب ترین افراد میں سے ایک تھے۔
ان کی قیادت میں درجنوں افراد کا ایک نیٹ ورک کام کرتا تھا۔ جس کی وہ سربراہی کرتے اور وہ اس دور کے دنیا کے سب سے بڑے بینک نیشنل سٹی بینک (جو اب سٹی بینک کے نام سے معروف ہے) سے جعل سازی کے ذریعے بہت سارے ٹریولرز چیک بنانے میں کامیاب ہوئے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ اس واردات میں کتنی رقم کا گھپلا کیا گیا۔ مگر لوسیو کے اپنے مطابق یہ رقم کم از کم 20 ملین امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھی۔ لوسیو کا دعویٰ تھا کہ یہ رقم لاطینی امریکہ اور یورپ میں حکومتوں کے خلاف گوریلا لڑائی لڑنے والے گروہوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال کی گئی۔
کہانی یہ مشہور ہے کہ اُن کی جعلسازیوں ہی کے باعث معروف گوریلا گروپ ’بلیک پینتھرز‘ کے سربراہ ایلڈریج کلیور کو فرار ہونے میں مدد ملی اور اس ہی پیسے کی مدد سے بولیویا میں نازی کلاؤس باربی کے اغوا کی کوشش کی گئی۔
اور ان کا اپنا دعویٰ تھا کہ گوریلا کارروائیوں کے حوالے سے انھوں نے چی گویرا کے ساتھ حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
اس سب میں سچائی کتنی ہے اور افسانہ یا کہانی کتنی یہ تو معلوم نہیں مگر اس سب کے بیچ لوسیو ارٹوبیا کی زندگی کسی فلم کے سکرپٹ سے کم نہیں۔
ایک فلمی زندگی
لوسیو ارٹوبیا سنہ 1931 میں کاسکینٹ نامی قصبے کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اپنی سوانح عمری میں وہ لکھتے ہیں کہ اپنے بچپن میں ’میں نے کبھی ایسی چیز کا احترام نہیں کیا جو ممنوع تھی۔ اگر مجھے کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو اسے حاصل کرنے کے لیے۔ میں ہر وہ کام کر گزرتا جو مجھے مناسب معلوم ہوتا تھا۔‘
مثال کے طور پر اپنے بچپن میں انھوں نے وہ سکے چرانے سے گریز نہیں کیا۔ جو اس دور کے امیر افراد ان کے قصبے میں واقع چرچ کے سامنے تالاب میں بطور نذرانہ پھینکتے تھے۔
لوگوں کے باغوں سے وہ پھل چرا لیتے تھے اور ہر وہ کام کر گزرتے جو زندہ رہنے کے لیے ضروری تھا۔
چھوٹی موٹی چوری چکاری کے بعد وہ سرحد پر ہونے والی سمگلنگ کے کام میں ملوث ہوئے۔ اپنے بھائی کے ساتھ۔ وہ تمباکو۔ ادویات اور شراب سرحد پار سمگل کرتے تھے۔
چوری سے شروعات
اور جب وہ جوان ہوئے تو اس دور کے قانون کے تحت انھیں ضروری فوجی خدمات کی انجام دہی کے لیے بھرتی کیا گیا اور یہ وہ وقت تھا جب انھیں فوجی بیرکوں کے گوداموں تک رسائی حاصل ہوئی اور یہاں ان کے سامنے ایک نئی دنیا تھی۔
جلد ہی بیرکوں سے فوجی جوتے، قمیضیں۔ گھڑیاں اور دیگر قیمتی سامان کوڑے کے ڈبوں میں بیرکوں ۔سے باہر سمگل ہونے لگا۔ لیکن فوج کو جلد ہی۔ اس لوٹ مار کا پتہ چل گیا تاہم گرفتاری سے قبل ہی وہ فرار ہو کر فرانس پہنچ گئے کیونکہ اگر وہ فرار نہ ہوتے۔ تو ان کی قسمت یا تو مشقت بھری جیل ہوتی۔ یا انھیں فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا۔
وہ فرانس تو پہنچ گئے مگر مشکل یہ تھی ۔کہ انھیں فرانسیسی زبان کا ایک بھی لفظ نہیں آتا تھا۔
اپنی سوانح عمری میں وہ لکھتے ہیں کہ ’فرانس پہنچ کر مجھے کسی چیز کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔‘ لیکن جلد ہی انھوں نے ایک کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرنا شروع کر دیا اور مرتے دم تک اس صنعت سے وابستہ رہے۔
وہ کہتے تھے کہ ’انسان وہی ہیں جن کی پہچان اپنے کام کی وجہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ نجات اپنے کام ہی میں پائی، جس کے بغیر کوئی کچھ نہیں۔‘
حقيقی ذندگی
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ کام تھا جو ان کی خفیہ زندگی کے لیے ایک بہروپ کا کام کرتا تھا کیونکہ کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ ایک ان پڑھ مزدور اس دور کی بڑی جعل سازیوں کے پیچھے ہو سکتا ہے۔
یہ وہ دور ہے جب فرانس کا دارالحکومت پیرس ہزاروں ہسپانوی کمیونسٹوں، انتشار پسندوں، سوشلسٹوں اور منحرف افراد کی پناہ گاہ تھا۔
لیکن لوسیو جو بمشکل پڑھنا جانتے تھے ان کی کوئی سیاسی تربیت نہیں تھی۔ اپنی یادداشتوں میں وہ بیان کرتے ہیں ایک دن ان کے ایک ساتھی نے ان سے پوچھا ’تمھاری سیاسی سوچ کیا ہے؟ تم ہو کون؟‘
لوسیو نے اسے جواب دیا کہ وہ کمیونسٹ ہیں، کیونکہ، ان کے الفاظ میں، اُن کا خیال تھا کہ فاشزم کے تمام مخالفین یہی نظریہ رکھتے ہیں۔
ان کا ساتھی اس جواب پر ہنسا اور کہا ’کیا بات ہے تم کمیونسٹ بننے جا رہے ہو، تم انارکسٹ ہو۔‘
سیاسی بیداری
انھوں نے یہ لفظ اپنے والد سے سُنا تھا۔ غصے میں آ کر ایک دن ان کے والد نے کہا تھا کہ ’اگر میں دوبارہ پیدا ہوا تو ایک انارکسٹ بنوں گا۔‘
یہ ان کی دوسری زندگی کا آغاز تھا۔ ’یہ میرے لیے سچ کی ابتدا ہوئی، یہ اصل آزادی تھی۔‘
انھوں نے کچھ فرانسیسی کورس پڑھنے کے لیے خود کا اندراج لبرٹیرین یوتھ میں کیا اور پیرس کے علاقے سین، مارتھ میں نظر آنے لگے جہاں نوبیل انعام یافتہ فلسفی البرٹ کیموس اور دیگر اہم شخصیات آیا کرتی تھیں۔
ان کے مطابق فرانسیسی زبان کے جن سکولوں نے ان پر تعلیم کے دروازے بند کیے وہ تھیٹر گروپس کے ہاتھوں ان کے لیے کُھل گئے۔ ایک روز سی این ٹی سیکریٹری نے ان سے مدد مانگی کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے پاس ایک اپارٹمنٹ ہے اور ہمارا ایک دوست ہے جسے مدد درکار ہے۔ آپ کچھ دیر کے لیے ان کی مدد کریں، جب تک ہم ان کے لیے کوئی بندوبست نہیں کر لیتے۔‘
فرانس مخالف گوریلا
یہ دوست کواکو ساباتی تھے جو کیٹلونیا میں فرانس مخالف گوریلا جھڑپوں میں ملوث تھے اور سپین میں سب سے زیادہ مطلوب لوگوں میں سے تھے۔ برنرڈ تھامس کے مطابق لوسیو ان سے بہت متاثر تھے اور انھیں ’انارکزم کا استاد‘ کہتے تھے۔
لوسیو نے کواکو کو چھپانے میں مدد کی اور جب وہ چھ ماہ قید کی سزا میں جیل گئے تو انھیں تھامسن مشین گن اور پستول جیسے ’اوزار‘ مل گئے۔
ان ’اوزاوں‘ اور کھلے لباس کی مدد سے لوسیو کے مطابق انھوں نے پیرس میں اپنا پہلا بینک ایک دوست کے ساتھ لوٹا۔ وہ اسی ’ضبطی‘ کہتے تھے، جیسے ریاست کسی مالک سے اس کی کوئی ملکیت یا اثاثہ ضبط کرتی ہے۔
لوسیو اس وقت کڑی محنت مزدوری کر کے ہفتہ وار 50 فرانکس کماتے تھے مگر 16 منٹ میں انھوں نے لاکھوں فرانکس کما لیے تھے۔ پہلی ڈکیتی کے بعد انھوں نے کئی اور بینک لوٹے گئے مگر لوسیو نے کبھی تعمیراتی مقامات پر مزدوری نہیں چھوڑی۔ ان کے مطابق لوٹی ہوئی دولت ’انقلابی‘ مقاصد کے لیے استعمال ہونا تھی۔
ان کے لیے بینک لوٹنا آسان ہوتا تھا کیونکہ اس دور میں کوئی سکیورٹی کیمرے نہ تھے مگر وہ اس کام کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ انھیں ڈر تھا کوئی زخمی نہ ہو جائے۔ بعد کے انٹرویوز میں انھوں نے بغیر مسکرائے کہا تھا کہ ’جب میں پہلے بینک کو ضبط (لوٹنے) کرنے جا رہا تھا تو میں نے اپنی پینٹ میں پیشاب کر دیا تھا۔‘
مقبوليت
تاہم انھوں نے اپنی تھامسن مشین گن کی جگہ پرنٹنگ پریس خرید لی جو کہ انارکسٹس کا عظیم ہتھیار تھا۔
پرنٹنگ کی دنیا میں اپنے دوستوں کی مدد سے انھوں نے جعلی ہسپانوی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس بنانا شروع کر دیے۔ اس سے لوگوں کو جلا وطن ہونے میں مدد ملتی یا حکومت کے مخالفین کسی ملک میں آ سکتے تھے۔
انھوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ ’اس کی مدد سے گاڑیاں کرائے پر لینا ممکن تھا، بینک اکاؤنٹ، سفری دستاویزات وغیرہ سب حاصل ہو سکتا تھا اور وہ بھی سرکاری اہلکاروں کو پیسے دیے بغیر۔۔۔ اس سے وہ دروازے کھل گئے جو ہمارے لیے بند تھے۔‘
دستاویزات کے بعد ان کا اگلا ہدف کرنسی نوٹ بن گیا۔ لوسیو کے ہاتھ امریکی ڈالر کی اچھی نقل لگ گئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’دوسرے کام جو ہم نے کیے تھے ان کے مقابلے ڈالر کی نقل تیار کرنا قدرے آسان تھا۔ کرنسی کی سطح پر سب سے مشکل کام کاغذ لانا ہے۔‘
کیوبا کا انقلاب کئی انارکسٹ، کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین کے لیے متاثر کن رہا ہے۔ تاریخ دان آسکر فرین ہرنینڈز کے مطابق یہ ممکن ہے کہ اس وقت کے سماجی کارکن کیوبا کے سفارتی عملے سے رابطے میں ہوں گے۔ تاہم ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ’انھیں چی گویرا ملے تھے یا نہیں۔‘
لوسیو پُرجوش تھے اور ان کے پاس ایک سادہ منصوبہ تھا: کیوبا لاکھوں ڈالر چھاپے اور مارکیٹ میں ڈالر پھینک کر امریکی کرنسی ڈبو دے۔ انھوں نے جعلی کرنسی بنانے کے لیے پلیٹیں دینے کی حامی بھری۔
ان کا دعویٰ ہے کہ چی گویرا اس وقت کیوبا کے وزیر خزانہ تھے اور انھوں نے مبینہ طور پر انھیں اس معاملے پر واضح نہیں پایا۔ لوسیو کو اس پر افسوس ہوا۔
چی گویرا سے تعلق
ان کے مطابق چی گویرا یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی اپنی کرنسی کی نقلیں تیار۔ کی جائیں کیونکہ اس جرم کی بڑی سزا بیس سال قید تھی۔
لوسیو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’اسی لیے ہم نے ٹریولر چیکس کا انتخاب کیا جن کی نقل تیار کرنے کی سزا صرف پانچ سال تھی۔‘
وہ برسلز جانے والی ایک ٹرین پر سوار ہوئے تاکہ۔ وہاں ایک بینک سے 30 ہزار فرانکس بذریعہ ٹریولر چیک خرید سکیں۔ فرسٹ نیشنل سٹی بینک دنیا کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک تھا۔
یہ آسان نہ تھا تاہم انھوں نے نقلی چیک تیار کر لیے۔ انھوں نے ایک سو ڈالر کے 25 چیکس۔ کی آٹھ ہزار شیٹیں تیار کر لیں۔ مختلف ٹیموں نے قریب دو کروڑ ڈالر پیسوں کی صورت میں بینکوں سے نکلوائے۔
وہ یورپ کے مختلف شہروں میں اپنی ٹیمیں۔ بھیجتے اور مخصوص اوقات میں چیک کیش کرواتے۔ اس طرح دستاویزات کے نمبر چوری شدہ یا مشتبہ چیکس میں درج نہ ہو پاتے۔
اس پیسے کے ساتھ کیا ہوا؟
تاریخ دان آسکر فرین ہرنینڈز سوال کرتے ہیں۔ کہ ’یہ سب سے بڑے سوالوں میں سے ایک ہے۔ انھوں نے کتنے پیسے چُرائے اور انھیں کہاں اور کیسے منتقل کیا۔‘ وہ اس دعوے کی تردید کرتے ہیں کہ اس پیسے سے وہ خود امیر ہوئے۔
لوسیو ارٹوبیا اور ان کے ساتھیوں کے مطابق اس پیسے کے ذریعے لاطینی امریکہ اور یورپ میں بائیں بازو کے گوریلا جنگجوؤں اور مسلح گروہوں۔ کی مالی امداد کی گئی۔
ہرنینڈز کے مطابق سکیورٹی وجوہات، خفیہ تحقیقات اور پولیس ذرائع کی عدم دستیابی کے باعث اس کی فہرست موجود نہیں۔ ’ان کے خلاف غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے کسی ثبوت کو درج نہیں کیا جا رہا تھا۔‘ پیسوں کے مقام کے حوالے سے لوسیو کی کہانی میں کوئی مصدقہ بات درج نہیں ہے۔
لوسیو کو تشدد سے نفرت دی اور اسی لیے انھوں نے ’ضبطی‘ یعنی بینک لوٹنے کا کام چھوڑ دیا تھا کیونکہ انھیں ڈر تھا کوئی زخمی ہو سکتا ہے یا مارا جا سکتا ہے۔ تاہم ان پیسوں سے سپین میں مسلح گروہ۔ ای ٹی اے کی امداد کی گئی اور اس پر کسی نے اخلاقی اعتراض نہ اٹھایا۔
کاروآئی کا دفاع
لوسیو نے 2015 میں ایک ہسپانوی ٹی وی پروگرام میں اس کا دفاع کیا اور بتایا۔ کہ انھوں نے بچپن اور جوانی میں اپنے گاؤں میں ناانصافیوں کا سامنا کیا تھا۔ ’مجھے سپین اور ناروے سے نفرت تھی۔ کیونکہ میں نے اپنی زندگی خوف میں گزاری تھی۔ لہذا لڑنے والوں کے ساتھ میری یکجہتی تھی۔‘
مگر اس مزاحمت کو بھی زوال پذیر ہونا پڑا۔
ہر جگہ جعلی ٹریولر چیک پکڑے جانے لگے۔ فرسٹ نیشنل سٹی بینک نے انھیں وصول کرنا بند کر دیا۔ جس سے افراتفری پیدا ہوئی۔ جنھوں نے یہ چیک خریدے تھے۔ وہ اب اپنے پیسے واپس نہیں لے پا رہے تھے۔
لوسیو کو اپنے دوست کی جانب سے پیشکش کی گئی: ایک خریدار ان سے 30 فیصد قدر پر تمام چیک خریدے گا۔
لوسیو کو جون 1980 میں گرفتار کیا گیا۔ اور فوراً جیل بھیج دیا گیا۔
ان کے وکلا میں سے ایک رولینڈ دوماس تھے۔ جو بعد میں فرانس کے وزیر خارجہ بنے۔ لوسیو کہتے ہیں۔ کہ ’ہم فوراً سمجھ گئے۔ کہ یہ پیسے ہمارے لیے نہیں بلکہ ہماری سیاست کے لیے تھے۔ ہم کہتے تھے۔ کہ نقلی ٹریولر چیک بناؤ، انھیں نظام میں داخل کرو ۔تاکہ حکومت کمزور ہو سکے۔‘
دوماس کے سپین سے سفارتی تعلقات تھے اور انھوں نے لوسیو سے کہا ۔کہ وہ ای ٹی اے سے رابطہ قائم کرنے میں مدد کریں۔ انھوں نے سپین کے سیاستدان۔ ہاویئر روپیریز کو اغوا کر رکھا تھا۔
انھیں 31 روز بعد رہا کر دیا گیا۔ 1981 میں جب مسلح گروہ نے سپین میں آسٹریا، ایل سالواڈور سفارتی عملے کو اغوا کیا تو دوبارہ لوسیو کی مدد لی گئی۔
فرسٹ نیشنل سٹی بینک کا کیا ہوا؟
لوسیو نے قریب چھ ماہ جیل میں گزارے۔ اور اس دوران۔ ان کے خلاف کیس کی تحقیقات کی جا رہی تھی۔ مگر پولیس کو پرنٹنگ پلیٹس نہ ملیں اور جب تک یہ پلیٹس جعلی نوٹ بنانے والوں کے پاس تھیں، تب تک مسئلہ باقی تھا۔
مجبوری میں بینک نے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک وکیل تھیری فگارٹ، جو فرانسیسی وزیر اعظم کے مشیر بھی تھے، نے لوسیو سے ملاقات کی اور بینک کے وکلا کو مذاکرات کے لیے تیار کیا۔
بينک ڈکيتی
فگارٹ نے بتایا کہ ’فرسٹ نیشنل سٹی بینک کے وکلا نے۔ کہا کہ یہ کاروبار کے لیے نقصان دہ تھا لہذا یہ رکنا چاہیے۔ اور یہ اس طرح جاری نہیں رہ سکتا۔ بہت سے لوگ جیل جا چکے تھے مگر یہ مسئلہ جاری تھا تو یوں سٹی بینک اور لوسیو کے وکلا نے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹنے کا سوچا۔ سب کو معلوم تھا۔ کہ لوسیو ہی اس کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔‘
فگارٹ کے مطابق وہی بینک جس سے لوسیو اور اس کے گروہ نے لاکھوں ڈالر چُرائے۔ یہ ان کے خلاف الزامات سے دستبردار ہو گیا۔ اور بدلے میں انھیں وہ پلیٹس مل گئیں جنھیں پیرس کے ایک لاکر روم میں چھپایا گیا تھا۔
دستاویزی فلم میں وکلا نے بتایا کہ یہ تبادلہ ایک ہوٹل کے کمرے میں ہوا۔ جہاں بینک کے نمائندے بھی موجود تھے۔ ’یہ بے مثال تھا، جیسے کوئی پولیس پر مبنی فلم ہو۔‘ بینک نے مواد کی تصدیق کی اور فگارٹ کے مطابق انھوں نے معاہدے کے تحت بریف کیس میں ’پیسوں کی بڑی رقم‘ ادا کی۔
لوسیو کے مطابق یہ ڈیل چار کروڑ فرانکس میں ہوئی۔ جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا۔ وہ اس بات پر قائم ہیں کہ انھوں نے کوئی پیسہ نہیں رکھا۔
بینک نے بی بی سی کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر اپنا موقف نہیں دیا ہے۔
خاندان کو وقت
لوسیو نے پچاس سال کی عمر میں اپنی انقلابی زندگی چھوڑ کر خاندان کو وقت دینے کا فیصلہ کیا اور پیرس کے قریب مزدوری جاری رکھی۔
تاریخ دان ہرنینڈز کہتے ہیں کہ ’کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہم کبھی نہیں جان سکیں گے اور ہمیں اسے قبول کرنا ہو گا۔ مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک دوسرے ملک سے آیا۔ شخص جس کے پاس سیاسی حمایت اور بیداری نہ تھی، فرانس آیا اور انارکسٹ نظریات سیکھے۔ وہ کارکن بنا اور ایسے اقدامات کیے جن سے دیو مالائی ہیرو بن گیا۔‘
لوسیو کی وفات 2020 میں ہوئی۔ اور انھوں نے کئی انٹرویوز میں کہا کہ انھوں نے کبھی جرم کی دنیا نہیں چھوڑی تھی۔ ’مجھے خود بھی اپنے تجربات پر یقین نہیں۔‘
[email protected]