’ہم اپنے خاندانوں سے چھپ کر خفیہ زندگیاں جی رہے ہیں، خاص طور پر اپنے والدین سے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ اگر انھیں اس بارے میں معلوم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوں گے۔‘
یہ برطانوی نژاد پاکستانی خاتون جو اس وقت 20 کے عشرے میں ہیں اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔ ان کے والدین کی جانب سے ان پر ارینج میرج کے لیے دباؤ ڈالا گیا. اور ڈیٹنگ سے متعلق ان ترجیحات پر ان کی مدد نہیں کی گئی جس کے باعث ان کا اپنے خاندان کے ساتھ تناؤ جھگڑا ہو گیا۔
اس اختلاف کے باعث پیدا ہونے والے تناؤ کی وجہ سے انھیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں. کہ ’اگر مجھ پر ارینجڈ میرج کا اتنا دباؤ نہ ڈالا جاتا تو آج میں اپنے گھر میں رہ رہی ہوتی۔‘
ان کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے، ان کی پیدائش اور پرورش وہیں ہوئی تھی. اور وہ تقریباً 20 سال پہلے برطانیہ آئے۔
سمجھوتہ
وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے والدین کی ’سمجھوتہ نہ کرنے والی فطرت‘ کی وجہ دراصل یہ خوف ہے کہ انھیں ’روایات کی خلاف ورزی‘ نہیں کرنی۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اپنے خاندان سے دور ہونا بدقسمتی ضرور ہے لیکن ضروری عمل بھی ہے تاکہ وہ اپنی زندگی بھرپور انداز میں گزار سکیں۔
کسی بھی نوجوان کے لیے ڈیٹنگ اکثر ایک مشکل اور جذباتی اعتبار سے کٹھن تجربہ ہوتا ہے. لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ برطانیہ میں مقیم جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے مسائل اس بارے میں برطانیہ کے دیگر نوجوانوں سے زیادہ گھمبیر ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ بہت اہم ہے. کہ آپ اپنے آپ کو ترجیح دیں ورنہ آپ اسی سائیکل میں پھنس کر رہ جائیں گے اور ایسی زندگی جینے پر مجبور ہوں گے جو آپ نہیں جینا چاہتے۔‘
’خاص طور پر ایسے میں جب ہمارے والدین کو بھی ایسی زندگی جینے پر مجبور کیا گیا جو وہ نہیں جینا چاہتے تھے۔ وہ اس شخض سے شادی نہیں کرنا چاہتے تھے جس سے ان کی شادی ہوئی۔‘
ارینجڈ میرج
صرف ارینجڈ میرج ہی نہیں بلکہ اپنی ثقافت سے باہر کسی کو ڈیٹ کرنا بھی ان کے لیے ایک مسئلہ رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب آپ پر کم عمر میں ہی ارینجڈ میریج تھوپ دی جائے تو آپ کا زندگی کو دیکھنے کا نظریہ بہت محدود ہو جاتا ہے۔ میرے لیے یہ بہت مشکل تھا کہ میں کسی سے ملوں یا کسی کو ڈیٹ کروں۔
’جب میں اس بارے میں سوچتی ہوں کہ میں ایک سفید فام شخص کو ڈیٹ کر رہی ہوں۔ تو ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ رشتہ زیادہ دیر نہیں چلے گا کیا اس کی ایک ایکسپائری ڈیٹ ہے؟ میرا اپنے خاندان کے ساتھ رشتہ متاثر ہو رہا ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’کیونکہ اپنی ثقافت سے باہر کسی لڑکے کے ساتھ رشتہ بنانے کے لیے مجھے اپنے خاندان والوں کے ساتھ رشتوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔
’میرے خیال میں یہ ہماری ثقافت کا مسئلہ ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ یا یہاں ایسا ہی ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا اور تم ایسے نہ کر کے روایت توڑ رہی ہو۔‘
اپنے گھر چھوڑنے کے فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ وہ اس فیصلے کے بعد بہت خوش ہیں۔ ’اب میں ڈیٹنگ کی دنیا میں آزاد ہوں۔ اب میں اپنے ضمیر پر کسی بھی قسم کے بوجھ کے بغیر ڈیٹ کر سکتی ہوں۔ اگر میرے کبھی بچے ہوئے تو میں ان پر ارینجڈ میرج کا دباؤ نہیں ڈالوں۔‘
’میرے گھر میں ایک بہو آئے گی اور ایک داماد‘
انگلینڈ کے شہر لیڈز میں مقیم سکھ پنجابی اداکار 22 سالہ پاو ایک ایسے ہی جنوبی ایشیائی نوجوان کی مثال ہیں جو اپنی صنفی شناخت ایک ہم جنس پرست کے طور پر کرواتے ہیں۔
جنوبی ایشیائی کمیونٹی میں رہتے ہوئے انھیں آغاز میں اپنی جنسی ترجیحات کو سمجھنے میں مشکلات پیش آئیں۔ وہ کہتے ہیں. کہ ’مجھے کبھی بھی خواتین پسند نہیں آئیں، مجھے ہمیشہ لڑکے پسند آتے ہیں۔ جنوبی ایشیا سے تعلق ہونے کی وجہ سے ہم جنس پرست مشکل ہے۔ کئی سال تک میں یہ کسی کو نہیں بتا سکا کہ ہم جنس پرست ہوں۔‘
جب وہ نو عمری میں اس بات کا اعلان کرنا چاہتے تھے کہ وہ ہم جنس پرست ہیں تو آغاز میں انھیں خوف تھا کہ انھیں ان کے والدین گھر سے نکال دیں گے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ایسے کئی لوگ ہیں جنھیں صرف مختلف جنسی شناخت کے باعث ان کے والدین نے عاق کر دیا اور وہ بے گھر ہو گئے۔‘
پاو کی والدہ کو وہ لمحہ ٹھیک سے یاد ہے جب اس نے انھیں اپنے ہم جنس پرست ہونے کے حوالے سے آگاہ کیا تھا. اور اپنے خوف کے بارے میں بتایا تھا۔
جنسی ترجیحات
وہ کہتی ہیں. کہ ’جب اس نے مجھے اپنی جنسی ترجیحات کے بارے میں بتایا. تو اس نے مجھ سے پوچھا: ’کیا آپ اور بابا مجھے گھر سے باہر نکال دیں گے؟‘ میں نے کہا نہیں ایسا نہیں ہو گا۔‘
ان کا ماننا ہے کہ کمیونٹی میں والدین کی جانب. سے حمایت اور حوصلہ افزائی کی عدم موجودگی کے باعث نوجوانوں کو ڈیٹنگ کی دنیا میں مسائل کا سامنا ہے۔
’ہماری نسل اور اور ہماری ثقافت ہمارے بچوں کو ہم سے دور کر رہی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے دونوں بیٹوں کے لیے جب لوگ مجھ سے یہ کہتے ہیں. کہ آپ ان کے لیے لڑکیاں دیکھیں گی۔ تو میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے جو میں انھیں کہتی نہیں ہوں کہ میرے گھر میں ایک بہو آئے گی اور ایک داماد۔‘
پاو کی مشکلات دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ کیسے جنوبی ایشیائی نوجوانوں کے ڈیٹنگ سے متعلق مسائل اس لیے زیادہ ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کی شناخت سے متعلق ان کی اپنی کمیونٹی اور دیگر افراد کو بھی آگاہی نہیں ہوتی۔ وہ ڈیٹنگ کے غیر یقینی میدان میں دو محاذوں پر جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔
میری ثقافت
پاؤ کہتے ہیں کہ ’جن سفید فام لڑکوں کو میں نے ڈیٹ کیا وہ میری ثقافت کو نہیں سمجھتے لیکن جن دیسی لڑکوں کو میں نے ڈیٹ کیا وہ میری ثقافت کو تو سمجھتے تھے لیکن خود اپنی جنسی ترجیحات کو پوری طرح قبول نہیں کرتے تھے۔‘
’میں نے ایسے دیسی لڑکوں کو ڈیٹ کیا ہے جو یہ جان کر حیران ہوتے تھے. کہ میرے والدین کو میری جنسی ترجیحات کے بارے میں علم ہے۔ وہ کہتے تھے کہ وہ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔‘
’میں ایک سکھ لڑکے کو ڈیٹ کر رہا ہوں۔ اس کے والدین کو اس کی جنسی ترجیحات کے بارے میں نہیں معلوم۔ اگر وہ انھیں بتاتا ہے. تو مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہو گا. اور مجھے یہ سوچ کر خوف آتا ہے۔‘
’ارینجڈ میرج کے طریقہ کار کو دوبارہ برانڈ کرنے کی ضرورت ہے‘
حلیمہ ایک برطانوی نژاد بنگلہ دیشی مصنف ہیں جنھوں نے جنوبی ایشیائی ارینجڈ میرجز کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’میری پیدائش برطانیہ میں ہوئی لیکن میرے والدین بنگلہ دیش میں پیدا ہوئے۔ مجھے ارینجڈ میرج کے خیال سے کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ ارینجڈ میرج کے حوالے سے میری سمجھ دوسرے لوگوں سے کافی مختلف ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ انھیں ’برطانیہ میں جنوبی ایشیائی شناخت کے ساتھ بڑے ہونے. اور ڈیٹنگ کی دنیا کا تجربہ کرنے. کے بعد یہ احساس ہوا. کہ یہ نہ ہی کرو تو اچھا ہے۔ جب میں 20 کے عشرے میں داخل ہوئی. اور اس عمر میں ہوتا یہ ہے کہ ہم ڈیٹنگ صرف شادی کے مقصد سے کرتے ہیں۔‘
حلیمہ کے مطابق ماڈرن ارینج میرج ایک ایسا عمل ہے جو آپ کو محدود کرنے کی بجائے اختیار دیتا ہے۔ ’ارینجڈ میرج میں آپ کو کسی سے ملوایا جاتا ہے. اور اگر وہ شخص آپ کو پسند نہیں آتا. تو کوئی بات نہیں، اہم بات یہ ہے کہ فیصلے کا حق آپ کا ہوتا ہے۔‘
وہ مشورہ دیتی ہیں. کہ ’ارینجڈ میرج کو آخری حربے کے طور پر دیکھا جاتا تھا اگر آپ شادی کے لیے خود کسی کو نہیں ڈھونڈ پائے تو آپ کو ارینجڈ میرج پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ بہتر ہوتا کہ آپ خود کسی کو ڈھونڈ لیتے۔
’میرے خیال سے ارینجڈ میرج کے نئے طریقہ کار کو دوبارہ سے برانڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ دن گئے. جب آپ کے والدین آپ کو کسی سے متعارف کرواتے تھے۔ چائے سموسے کھلاتے تھے۔ اور آپ اگلے ہی دن شادی کر لیتے تھے۔ اب یہ ایک بہتر طریقہ کار ہے جس میں آپ کے پاس کسی سے ملنے کے کئی متبادل ہیں۔‘