انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی ’لٹیری دلہن‘ جن پر شادیاں کر کے زیور اور نقدی چرانے کا الزام ہے

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے بڈگام ضلع میں داناس گاؤں کے رہنے والے ثنااللہ گنائی نے راجوری ضلع کی ایک خاتون سے شادی کی تو کچھ عرصہ بعد وہ روایت کے مطابق اپنے میکے چلی گئیں۔

کئی روز تک جب وہ واپس نہیں لوٹیں تو ثنااللہ نے پتہ کرنا شروع کیا۔ تب انھیں معلوم ہوا کہ ان کی بیوی پہلے خاوند سے طلاق شدہ ہیں اور دو بچوں کی ماں ہیں اور ان کے علاوہ کسی اور کے ساتھ بھی شادی کر چکی ہیں۔

انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح کی دستاویز پر ان کا جو نام درج ہے وہ ان کا اصلی نام نہیں ہے۔

ضلع بڈگام میں ایک علاقے ’خان صاحب‘ کی کئی بستیوں سے تین ایسے شہری ہیں جنھوں نے مذکورہ خاتون کے خلاف پولیس میں شکایت درج کی تھی۔

ضلع پولیس کے سربراہ طاہر گیلانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پہلی بار جب ایک شخص نے عدالت سے رجوع کیا تو ہم نے مقدمہ درج کر لیا، لیکن خاتون نے پیشگی ضمانت کروائی اور رہا ہو گئیں۔

’بعد میں مزید دو شکایات پر تفتیش کے دوران ہم نے انھیں گرفتار کر لیا۔ اس معاملے پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘

تاہم خاتون کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔ انھوں نے گرفتاری سے ایک روز قبل جموں میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’میری شادی ہوئی تھی لیکن بات نہیں بنی اور طلاق ہو گئی، پھر میں نے دوسری شادی کشمیر میں کی، اگر تیسری شادی ثابت ہو گئی تو مجھے پھانسی دی جائے۔‘

تاہم پولیس نے انھیں جعل سازی کے جرم میں گرفتار کر لیا ہے۔

’میرے تو پانچ لاکھ گئے لیکن وہ تحفے بھی ساتھ لے گئی‘

چالیس سالہ ثنااللہ گنائی پیشے سے مزدور ہیں۔ غربت اور دیگر وجوہات کی بنا پر ان کی شادی میں تاخیر ہوئی تو ان کی ملاقات ایک مقامی شہری عبدالحمید سے ہوئی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’اس نے مجھے کچھ تصویریں دکھائیں. اور کہا کہ راجوری میں ایک لڑکی ہے۔ راجوری پہنچ کر میری ملاقات جاوید بکروال سے ہوئی۔ لیکن جب میں لڑکی کے گھر پہنچا تو یہ وہ لڑکی نہیں تھی جس کی تصویر دکھائی گئی تھی۔‘

واضح رہے کہ کشمیر سے راجوری کا سفر طویل اور دشوارگزار ہے۔ راجوری دراصل جموں صوبے کا مسلم اکثریتی ضلع ہے جو لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے۔

ثنااللہ کہتے ہیں کہ ’ہم چند لوگ ہی بارات لے کر راجوری گئے تھے. جس کے لیے ٹرانسپورٹ پر 20 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ چار لاکھ کے زیور تھے. اور 24 ہزار کا فون بھی گفٹ کیا۔

’گھر پر چھوٹی سی دعوت بھی رکھی جس پر 35 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ میں تو برباد ہو گیا۔‘

ثنااللہ کہتے ہیں کہ اپنی شادی کے لیے وہ کئی سال سے پیسے جوڑ رہے تھے۔ ’میں دن میں مزدوری کرتا تھا اور رات کو کھیتوں یا کارخانوں کی رکھوالی بھی کیا کرتا تھا۔

’مجھے حیرت ہے کہ پڑوسیوں اور رشتہ داروں نے 32 ہزار کی نقدی اور جو تحفے دیے وہ انھیں بھی اُڑا لے گئی۔‘

dal lake

کیا ’لٹیری دُلہن‘ کسی بڑے گینگ کا حصہ ہے؟

بڈگام میں راجوری کی اس خاتون کا ایک عرف بھی عام ہو گیا ہے اور انھیں وہاں ’لٹیری دلہن‘ کہا جاتا ہے۔

ثنااللہ ’لُٹیری دُلہن‘ کا اکیلے مبینہ شکار نہیں ہیں۔ اسی علاقے کے ایک اور گاؤں کے 38 سالہ الطاف احمد کے ایک دوست بشیر احمد کے بھائی نے بھی اس خِاتون کے ہی کسی رشتہ دار سے شادی کر لی تھی۔

الطاف احمد نے بتایا کہ مجھے بشیر نے بتایا کہ اس کے بھائی کی سالی بھی شادی کرنا چاہتی ہے۔ ہم رات کو راجوری پہنچے۔ مہر میں ایک لاکھ روپے اور تین لاکھ روپے کے زیورات ادا کرنے کے بعد دلہن کو گھر لائے۔

’تین ماہ بعد اس نے کہا کہ گھر جانا ضروری ہے اور چلی گئی۔ پھر واپس نہیں لوٹی۔ ستم یہ ہے کہ وہ سب کچھ اپنے ساتھ لے گئی۔‘

ثنااللہ گنائی اس بات پر بھی حیران ہو گئے کہ پولیس میں شکایات درج ہونے کے بعد جب پولیس اس خاتون کو تلاش ہی کر رہی تھی تو معلوم ہوا کہ ایک اور شخص. بھی اس کا شکار ہو چکا ہے۔ ’میں تو اس عورت کی جعل سازی پر حیران ہوں۔ جب پولیس اسے ڈھونڈ رہی تھی تو پڑوسی گاؤں سرسیار. سے خبر آئی کہ اس نے وہاں ایک اور شادی کر لی ہے۔‘

تبصره

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.