روس کے انتباہ کے باوجود فن لینڈ اور سویڈن، دونوں ممالک نے تصدیق کی ہے کہ وہ نیٹو کی رکنیت کے امیدوار کے طور پر یورپی فوجی اتحاد کا حصہ بننے کے لیے تحریری درخواست دیں گے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے فن لینڈ کو خبردار کیا گیا تھا کہ غیر جانبداری کاراستہ چھوڑنا غلطی ہو گی۔
فن لینڈ کے صدر سؤلی نینیستو نے اسے ایک تاریخی دن قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق ان کے ملک کی پالیسی میں یہ تبدیلی روس کے یوکرین پر حملے کے ردعمل کو ظاہر کرتی ہے۔
دوسری جانب نیٹو کے وزرائے خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ جلد فن لینڈ اور سویڈن کو اپنے اتحاد کا حصہ بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
فن لینڈ کی روس کے ساتھ 1,300 کلومیٹر (810 میل) سرحد ہے۔ وہ اب تک اپنے مشرقی پڑوسی ملک روس کی مخالفت سے بچنے کے لیے نیٹو اتحاد سے دور رہا ہے۔
سنیچر کو صدر نینیستو نے صدر پوتن کو اپنے ملک کے فیصلے سے آگاہ کرنے کے لیے فون کیا۔ اس رابطے کے بعد فن لینڈ کے صدر نے تبصرہ کیا کہ یہ ایک براہِ راست اور صاف شفاف کال تھی جو بغیر کسی تلخی کے انجام پائی۔
ان کے مطابق ان کے ملک کے لیے ہمشیہ تناؤ سے بچنا اہم سمجھا جاتا تھا۔
سنیچر کو فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی میں اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ وہ ولادیمیر پوتن کو اپنے فیصلے سے متعلق صاف اور سیدھے انداز سے باخبر کرنا چاہتے تھے۔ ان کے مطابق ’میں، یا (میرے ملک) فن لینڈ کی یہ شہرت نہیں ہے کہ ہم خوفزدہ ہو کر کسی کونے میں خاموشی سے دُبک جائیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ فن لینڈ کی پارلیمنٹ کو اب اس فیصلے کی توثیق کرنا ہو گی۔ تاہم فن لینڈ کے وزیر اعظم سانا مارین نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ ارکان پارلیمنٹ اس معاملے پر پہلے بھرپور عزم اور ذمہ داری کے ساتھ بحث کریں گے۔
دوسری جانب سویڈن میں بھی حکمران جماعت سوشل ڈیموکریٹس نے کہا ہے کہ وہ اس سکیورٹی اتحاد کی حمایت کرتے ہیں اور ملک کی جانب سے درخواست دینے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
سویڈن کی جانب سے نیٹو اتحاد میں شمولیت کی درخواست دینے کا اعلان فن لینڈ کی جانب سے اتحاد میں شمولیت کے باقاعدہ اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔
روس نیٹو اتحاد کو ایک سکیورٹی خطرہ سمجھتا ہے اور اس نے ‘سنگین نتائج’ سے متعلق خبردار کیا ہے۔
سویڈن دوسری جنگ عظیم میں غیر جانبدار رہا تھا اور وہ دو صدیوں تک عسکری اتحاد میں شمولیت سے بچتا رہا ہے۔
اپنے ایک بیان میں سویڈن کی سوشل ڈیموکریٹس پارٹی کا کہنا تھا کہ وہ نیٹو اتحاد میں رکنیت کے لیے کام کریں گے جسے عوامی حمایت اور ملک کی حزب اختلاف کی اہم جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اور اس سلسلے میں اگلے چند دنوں میں باقاعدہ درخواست دی جائے گی۔
لیکن سویڈن کی سوشل ڈیموکریٹس جماعت نے کہا ہے کہ وہ ملک میں جوہری ہتھیار رکھنے یا نیٹو کے اڈے قائم کرنے کے مخالف تھے۔
بعدازاں ایک پریس کانفرنس میں، وزیر اعظم میگڈالینا اینڈرسن نے کہا کہ ان کی پارٹی کا خیال ہے کہ نیٹو اتحاد میں شامل ہونا ‘سویڈن اور سویڈن کے عوام کی سلامتی کے لیے بہترین’ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہمارے سوشل ڈیموکریٹس کے لیے، یہ واضح ہے کہ کسی اتحاد میں عسکری طور پر شامل نہ ہونا سویڈن کے لیے اچھا تھا ، لیکن ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ مستقبل میں یہ ہمارے لیے بہتر نہیں ہو گا۔’
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سویڈن بالٹک خطے کا وہ واحد ملک ہوا جو نیٹو کا رکن نہیں ہے تو اسے ‘خطرناک حالت’ میں چھوڑ دیا جائے گا۔
دفاع سے متعلق ضمانتیں
نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ نے، جو برلن میں اس وقت ایک اجلاس میں شریک ہیں، فِن لینڈ اور سویڈن دونوں کے لیے حفاظتی ضمانتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے، جبکہ نیٹو میں شامل ہونے کے لیے ان کی درخواستوں پر تمام رکن ممالک کی طرف سے توثیق کی جا رہی ہے۔ اس سارے عمل میں ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے کہا کہ ان ممالک کا اس اتحاد کا حصہ بننے کا عمل، ایک غیر واضح صورتحال کی طرح نہیں ہو سکتا کہ جہاں ان دونوں ممالک کی حیثیت غیر واضح ہو۔
ولادیمیر پوتن نے فِن لینڈ کے اس اقدام پر کوئی خاص دھمکی نہیں دی ہے تاہم روسی وزارت خارجہ نے اشارہ دیا ہے کہ اس پر ردعمل ظاہر کیا جائے گا یا جوابی کارروائی ہو گی۔
روس کے فن لینڈ کو بجلی کی سپلائی معطل کرنے کے فیصلے کو اس بات کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ جوابی کارروائی کس طرز کی ہو سکتی ہے۔ فن لینڈ کا کہنا ہے کہ روس نے اپنی بجلی کا تقریباً دس فیصد فراہم کرتا ہے اور وہ توانائی کے اپنے متبادل ذرائع سے اس کمی کو پورا کرسکتا ہے۔
فن لینڈ نے ترکی سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی
اس اعلان کے بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے کہا کہ نیٹو تنظیم فن لینڈ اور سویڈن دونوں کی رکنیت پر ترکی کے اعتراضات کا ازالہ کرسکتی ہے۔
خیال رہے کہ ترکی، جو کہ نیٹو کا رکن ملک ہے، شمالی یورپ کے ان دونوں ممالک پر کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتا ہے۔
واضح رہے کہ پی کے کے کئی دہائیوں سے ترک حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔
ترکی کے وزیر خارجہ میولت چووشولو کا کہنا ہے کہ سویڈن اور فن لینڈ کو چاہیے کہ وہ اپنے ملکوں میں دہشت گردوں کی حمایت بند کریں، پہلے واضح حفاظتی ضمانتیں فراہم کریں اور ترکی پر سے برآمدات پر پابندی ہٹائیں۔
لیکن انھوں نے مزید کہا کہ ترکی کسی کو دھمکی نہیں دے رہا ہے اور نہ ہی اس صورتحال میں اپنی حیثییت کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ترک میڈیا کے مطابق فن لینڈ کے صدر سؤلی نینیستو نے کہا ہے کہ وہ ترک صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ سویڈن اور فِن لینڈ دونوں میں کرد برادریاں رہائش پذیر ہیں اور سویڈن کی تو پارلیمنٹ میں بھی کچھ کرد نژاد ارکان ہیں۔
خیال رہے کہ ترکی نے اس بات کا ثبوت فراہم نہیں کیا ہے کہ ان کمیونٹیز کے مسلح گروپ پی کے کے سے روابط ہیں۔
مغربی فوجی اتحاد نیٹو 1949 میں سوویت یونین کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اپنے پڑوسی ملک یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے کے ارادے کو اس پر حملے کی ایک وجہ قرار دیا ہے۔