
’جہاں نسلی طور پر مُشکلات کا سامنا رہا، وہیں بحیثیت جاپانی خود کو قبول کروانا بھی ایک چیلنج رہا ہے۔‘
پیر کے روز مس جاپان کا تاج اپنے سر پر سجانے کے بعد کیرولینا شینو نے نم آنکھوں اور بھری ہوئی آواز کے ساتھ جاپانی زبان میں یہ الفاظ کہے۔
یوکرین میں پیدا ہونے والی 26 سالہ ماڈل پانچ سال کی عمر میں جاپان منتقل ہو گئیں اور ناگویا میں پرورش پائی۔
وہ یہ مقابلہ جیتنے والی پہلی جاپانی شہری ہیں. لیکن ان کی جیت اور اس کامیابی نے اس بحث کو ایک بار پھر جنم دیا ہے کہ جاپانی ہونے کا مطلب کیا ہے۔
جہاں کچھ لوگوں نے ان کی اس کامیابی کو سراہا ہے، وہیں کچھ کا کہنا ہے. کہ وہ ’مس جاپان‘ بن تو گئی ہیں مگر وہ جاپانی نہیں لگتی۔
کیرولینا شینو کے مس جاپان بننے سے دس سال قبل آریانا میاموتو 2015. میں مس جاپان کا تاج پہلنے والی ایسی خاتون تھیں کے جن کے والدین دو مُختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔
اس وقت ایک جاپانی ماں اور افریقی نژاد امریکی والد کے ساتھ مس میاموتو کی کامیابی نے یہ سوالات اٹھائے. کہ کیا مخلوط نسل کے شخص کو مقابلہ جیتنے کا اہل ہونا چاہیے۔
سوشل میڈیا
مگر اب دس سال کے بعد سامنے آنے والے اس معاملے میں تو حالات یکسر ہی مختلف ہیں، وہ اس وجہ سے کہ حال ہی میں مس جاپان بننے والی شینو کے تو والدین خوبصورت میں سے کسی کا بھی تعلق جاپان سے نہیں. اور یہی وہ وجہ ہے کہ یہ معاملہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کو پریشان کر رہا ہے۔

ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’مس جاپان کے طور پر منتخب ہونے والی شینو جاپانی نہیں. بلکہ بلکہ سو فیصد خالص یوکرینی ہیں۔ یہ بات تو درست ہے. بلکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ خوبصورت ہیں، لیکن یہ ’مس جاپان‘ ہے، اس میں جاپانی پن کہاں ہے؟‘
ایک اور صارف نے لکھا ’اگر وہ آدھی بھی جاپانی ہوتیں، تو یقینی طور پر کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن وہ تو نسلی طور پر بالکُل بھی جاپانی نہیں اور جاپان میں پیدا بھی نہیں ہوئیں۔‘
دوسروں کا کہنا تھا کہ ’ان کی جیت ملک میں دوسروں کو ’غلط پیغام‘ دے رہی ہے۔‘
یوکرین میں پیدا
کچھ لوگوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یوکرین میں پیدا ہونے والی ایک ماڈل کا انتخاب ایک سیاسی فیصلہ تھا۔
ایک فرد کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا. کہ ’اگر وہ روس میں پیدا ہونے والی ہوتیں تو ایسا کبھی نہ ہوتا، اور وہ کبھی جیت نہیں سکتی تھیں۔ ظاہر ہے. کہ یہ معیار اب ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ یہ جاپان کے لیے کتنا افسوسناک دن ہے۔‘
اس اعلان کے بعد مس جاپان مقابلے کے آرگنائزر آئی واڈا نے کہا ہے. کہ اس تقریب نے ہمیں جاپانی خوبصورتی پر دوبارہ غور کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
آئی واڈا نے مزید کہا کہ ’آج کے نتائج کے بعد، ایک چیز ہے خوبصورت جس پر مجھے یقین ہے۔۔۔ جاپانی خوبصورتی ظاہری شکل میں نہیں، خون میں نہیں لیکن یہ ہمارے دل میں موجود ہے۔‘
گزشتہ سال کے اوائل میں شینو نے انسٹاگرام پر جاپانی شہریت حاصل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا. کہ ’ہو سکتا ہے کہ وہ جاپانی نظر نہ آئیں لیکن ان کا ذہن ’جاپانی بن گیا‘ کیونکہ وہ جاپان میں پلی بڑھیں۔‘
مس جاپان 2024 کی حیثیت سے اپنی ٹرافی قبول کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ٹائٹل جیتنا ایک خواب تھا۔‘
’اس مقابلے میں ایک جاپانی کے طور پر تسلیم کیے جانے پر میں شکر گزار ہوں۔‘

hi!,I love your writing very so much! share we be in contact extra approximately your article on AOL?
I need an expert in this area to unravel my problem.
Maybe that’s you! Having a look ahead to look you.
Hey there! Someone in my Myspace group shared this site with us so I came to take a look.
I’m definitely enjoying the information. I’m bookmarking and will be tweeting this to my followers!
Exceptional blog and great style and design.
Thank you for the good writeup. It in reality was a leisure account
it. Look complicated to more brought agreeable from
you! However, how can we keep in touch?
Hello, i think that i saw you visited my web site so i came to “return the favor”.I’m trying
to find things to improve my site!I suppose its ok to use some of your ideas!!