’نابالغ بیٹے کو اُس کی ضد کے ہاتھوں مجبور ہو کر غیرقانونی راستے سے یورپ بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہمارے علاقے میں کام کرنے والے ایجنٹ گاؤں کے درجنوں لڑکوں کو یونان اور اٹلی بھجوا چکے تھے۔ میرا بیٹا کچے ذہن کا تھا جو اُن کی باتوں میں آ گیا اور ہمیں بار بار یہی کہتا تھا کہ اگر آپ نے مجھے یورپ نہیں بھجوانا تو میں گھر چھوڑ دوں گا۔‘
سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم جاوید اقبال اب اپنے اُس فیصلے پر بُری طرح پچھتا رہے ہیں کہ جب 13 سالہ بیٹے کی ’ضد‘ کے ہاتھوں مجبور ہو کر انھوں نے غیرقانونی طریقے سے اسے یورپ بھجوانے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے غیرقانونی. تارکین وطن کے تین کشتیوں پر سوار ہو کر یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران یونان میں پیش آئے حادثے کے نتیجے. میں پانچ پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ اور ان پانچ افراد میں جاوید کے 13 سالہ بیٹے محمد عابد بھی ہیں۔
ہلاکتوں کی تصدیق
یونان میں موجود سفارتخانے کے حکام کے مطابق فی الحال پانچ ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ 47 پاکستانی شہریوں کو ریسکیو کر لیا گیا جنھیں اب یونان کے حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے۔ حکام کے مطابق اگرچہ اس حادثے کے دوران لاپتہ ہونے والی پاکستانی شہریوں کی اصل تعداد کا تو علم نہیں تاہم یہ درجنوں میں ہو سکتے ہیں۔
سعودی عرب سے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے. جاوید اقبال نے بتایا. کہ وہ صوبہ پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے رہائشی ہیں اور فرنیچر کے کاریگر ہیں۔ جاوید کے چار بچے ہیں جن میں محمد عابد تیسرے نمبر پر تھے۔
عابد کے چچا کی جانب سے بی بی سی اُردو کو عابد کا ب فارم اور پاسپورٹ بھی بھیجا گیا. جس میں اُن کی تاریخ پیدائش 20 اگست 2011 ہے. اور یوں اُن کی عمر محض لگ بھگ 13 سال چار ماہ بنتی ہے۔
’ہمیں نہیں پتا تھا کہ جسے وہ منزل سمجھ رہا تھا وہ یورپ نہیں بلکہ موت ہے‘
جاوید اقبال نے بتایا کہ ’عابد سے بڑا بھائی. اور بہن تو سکول جاتے ہیں، لیکن عابد نے سکول جانا چھوڑ دیا تھا. اور بس یہی کہتا تھا کہ ملک سے باہر ہی تو جانا ہے تو پڑھ لکھ کر کیا کرنا۔ میں نے اسے کہا کہ میرے پاس سعودی عرب آ جاؤ، لیکن اس کی یہی رٹ تھی کہ اسے یورپ جانا ہے۔‘
والد نے بتایا کہ عابد کے دو کزنز سمیت رشتے داروں کے چار سے پانچ لڑکے انھی ایجنٹوں کی وساطت سے یونان گئے تھے جبکہ. اُن کے گاؤں اور دیگر قریبی دیہات کے بھی متعدد لڑکے گذشتہ ڈیڑھ، دو برسوں کے دوران اسی طریقے سے یورپ گئے۔
’یہ سب لڑکے سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے، جنھیں دیکھ کر عابد کہتا تھا کہ وہ دن کب آئےگا. جب میں بھی یورپ جاؤں گا۔ میں نے اُسے کئی بار سمجھایا. کہ ابھی تمہاری عمر چھوٹی ہے، جب بڑے ہو جاؤ گے تو چلے جانا، لیکن وہ بضد رہا۔‘
ایجنٹ
جاوید کہتے ہیں کہ اُن کا بیٹا جب بھی ’گاؤں میں موجود ایجنٹوں سے مل کر گھر واپس آتا، وہ اپنی والدہ کو بار بار یہی کہتا کہ اگر مجھے باہر بھجوانے کےلیے پیسوں کا انتظام نہ کیا تو میں گھر چھوڑ دوں گا، وہ (والدہ) میری اُس کے ساتھ فون پر بات کرواتی تو میں اسے سمجھاتا، وہ وقتی طور پر مان بھی جاتا، لیکن ایک، دو روز بعد وہ پھر پٹڑی سے اُتر جاتا۔‘
’یہ صورتحال دیکھ کر مجبوراً میں نے اپنی زرعی زمین کا ایک حصہ بیچنے کا فیصلہ کیا، کچھ زیورات عابد کی والدہ نے بیچے جس کے بعد ہم نے ایجنٹ کو 26 لاکھ روپے کی رقم ادا کی۔‘
ایئرپورٹ
جاوید اقبال بتاتے ہیں کہ اُن کا .بیٹا فیصل آباد ایئرپورٹ سے مصر اور پھر وہاں سے لیبیا پہنچا۔ والد کے مطابق ان کے بیٹے نے. لگ بھگ دو ماہ لیبیا میں قیام کیا. جس کے بعد وہ اُس کشتی میں روانہ ہوا جو یونان میں ڈوب گئی۔
جاوید بتاتے ہیں کہ ’جب تک وہ لیبیا میں تھا تو اُس کے ساتھ ہمارا روزانہ کا رابطہ رہا۔ وہ خوش بھی تھا اور یہی کہتا کہ کچھ مشکلات تو ہیں مگر یہ عارضی ہیں. اور یہ کہ وہ جلد اپنی منزل پر پہنچ جائےگا۔ ہمیں نہیں پتا تھا کہ جسے وہ منزل سمجھ رہا تھا وہ یورپ نہیں بلکہ موت ہے۔‘
جاوید بتاتے ہیں کہ ’گذشتہ جمعہ کی رات جب یونان کے قریب سمندر میں کشتی الٹنے کے واقعے کا شور مچا تو ہم نے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کیں لیکن کہیں سے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ اتوار کو ہمارا رابطہ یونان میں ایک دوست سے ہوا جو کہ تارکین وطن کے ہسپتال گیا جہاں بچے کی میت موجود تھی اور اس نے تصدیق کی کہ ہمارے بیٹے کی موت ہو چکی ہے۔ اس کے کچھ دیر بعد یونان میں سفارت خانے سے بھی کال آ گئی۔‘
لاش کی حوالگی
جاوید کے مطابق بیٹے کی لاش کی حوالگی کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اُن کے اہلخانہ سے نام مانگا تھا جو کہ انھوں نے دے دیا ہے .اور اب وہ آئندہ ایک، دو روز میں سعودی عرب سے پاکستان پہنچ جائیں گے۔
یونان میں پاکستان کے سفیر عامر آفتاب قریشی نے بھی اپنی. حالیہ پریس کانفرنس میں اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ ہلاک ہونے والے. پانچ پاکستانی شہریوں میں ایک بچہ بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ رجحان کہ اب بچوں کو غیرقانونی طور پر بھیجا جا رہا، انتہائی خطرناک ہے۔ میری والدین سے التجا ہے. کہ کم از کم کم عمر بچوں کو تو اس طرح کے خطرناک سفر پر نہ بھیجیں۔‘
عامر آفتاب قریشی کے مطابق زندہ بچ جانے والوں میں بھی کم عمر بچے موجود ہیں۔
’یوں لگتا ہے جیسے 30 لاکھ دے کر اپنے ہاتھوں اپنے بیٹے کی موت خرید لی ہے‘
اس سے ملتی جلتی کہانی وسطی پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے گاؤں اونچا ججہ کے رہائشی عرفان ارشد کی ہے، جن کا 19 سالہ بیٹا محمد سفیان بھی. اس حادثے میں ہلاک ہوا اور یونان میں موجود پاکستانی حکام نے اس کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
والد عرفان ارشد کے مطابق ’ایجنٹ نے ہمیں آخری وقت تک دھوکے میں رکھا اور یہی کہتا رہا کہ آپ کے بیٹے کو محفوظ کشتی میں بھجوا رہا ہوں اس لیے. فکر کی کوئی بات نہیں۔ جب گاؤں میں شور مچا کہ یونان کے قریب کشتی الٹ گئی ہے تو ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، یوں لگتا ہے. جیسے 30 لاکھ روپے دے کر اپنے ہاتھوں سے بیٹے کی موت خرید لی ہے۔‘
ہلاکت کی تصدیق
یاد رہے کہ یونان میں حکام کی. جانب سے محمد سفیان کی ہلاکت. کی تصدیق سب سے پہلے ہوئی تھی. کیونکہ، پاکستان کے سفیر عامر آفتاب قریشی کے مطابق، اُن کی جیب میں اُن کا پاسپورٹ موجود تھا۔
سفیان کے والد عرفان ارشد کی پسرور میں تیل اور کھاد کی دکان ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اُن کے چار بیٹے ہیں جن میں سے دو بحرین میں مقیم ہیں جبکہ تیسرا بیٹا پہلے ہی یونان میں موجود ہے. اور اب وہ چوتھے بیٹے کو بھی ایک ایکڑ زمین بیچ کر یونان بھجوانا چاہ رہے مگر وہ حادثے کا شکار ہو گیا۔
محمد سفیان کی کشتی حادثے. میں ہلاکت پر ایف آئی اے نے ایک خاتون سمیت چار انسانی سمگلروں. کے خلاف انسانی سمگلنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔