’ہمارے پاس سب سے بڑی مسجد اور سب سے بڑا غیر ملکی قرض ہے، جو ہم قیامت تک ادا کرتے رہیں گے‘

یہ مسجد 19,000 مربع میٹر سے زیادہ پر محیط ہے اور 107,000 نمازیوں کی گنجائش رکھتی ہے

مصر نے اپنے نئے انتظامی دارالحکومت میں ایک نئی اور عالیشان مسجد کھولی ہے جس پر بڑے پیمانے پر تنقید ہورہی ہے۔

مصری حکومت صحرا میں ایک نیا شہر تعمیر کر رہی ہے، تاکہ لوگوں کو بڑھتے ہوئے رش کی وجہ سے قاہرہ سے دور لے جایا جا سکے لیکن نئے شہر اور مسجد کی نقاب کشائی کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مصر بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا کررہا ہے، ملک میں صرف مارچ کے مہینے میں افراط زر کی شرح 30 فیصد سے زیادہ رہی۔

مصر کا نیا انتظامی دارالحکومت قاہرہ کے مشرق میں 45 کلومیٹر کے فاصلے پر بنایا گیا ہے۔

اس کے نئے اسلامی ثقافتی مرکز میں مصر کی یہ عظیم الشان مسجد بھی شامل ہے جو 19,000 مربع میٹر سے زیادہ پر محیط ہے اور اس میں ایک لاکھ سات ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔

اس مسجد کی تعمیر پر 800 ملین مصری پاؤنڈ (تقریباً 26 ملین امریکی ڈالر) لاگت آئی ہے اور یہ افریقہ کی دوسری بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کی تعمیر سے تین گنیز ورلڈ ریکارڈ ٹوٹے ہیں اور میڈیا میں اس پر بہت بات بھی ہورہی ہے۔ اس میں دنیا کا سب سے بڑا منبر بھی شامل ہے جس کی اونچائی 16.6 میٹر ہے اور یہ بہترین قسم کی لکڑی سے ہاتھ سے تیار کیا گیا ہے۔

اس میں دنیا کا سب سے بھاری فانوس بھی لگایا گیا ہے جس کا وزن 24,300 کلوگرام ہے۔ اس کا حجم 22 میٹر ہے اور اس کی چار سطحیں ہیں۔

دنيا کی سب سے بڑی مسجد

اس مسجد کی افتتاحی تقریب میں مصری صدر نے شرکت کی اور سرکاری میڈیا اسے مصر کی ’شان‘ کہہ رہا ہے ۔

لیکن سوشل میڈیا پر، جو صدر عبدالفتاح السیسی کے مخالفین کی تنقید کے لیے واحد پلیٹ فارم رہ گیا ہے، اس حوالے سے شدید تنقید کی گئی ہے۔

مصر کو تیزی سے بگڑتے معاشی بحران کا سامنا ہے اور اگرچہ بہت سے ممالک بڑھتے ہوئے افراط زر سے لڑ رہے ہیں، مصر ان ملکوں میں سے ایک ہے جو اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

مصر اپنے ریاستی اثاثے خلیجی سرمایہ کاروں کو فروخت کر رہا ہے تاکہ بجٹ کے بڑھتے ہوئے خسارے کو پورا کیا جا سکے۔

بہت سے لوگوں نے ٹوئٹر اور فیس بک پر ان سنگین معاشی حالات میں مذہبی مقامات پر شاہانہ اخراجات پر تنقید کی ہے خاص طور پر اس وقت جب لاکھوں مصری روزانہ اپنے دسترخوان پر کھانا رکھنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔

ایک فیس بک صارف نے پوسٹ کیا کہ ’زیادہ خرچ، پاگل پن اور پیسے کا ضیاع ہے۔ سب سے اونچا منبر، سب سے بھاری فانوس اور لوگوں کو کھانے کو کچھ نہیں ملتا۔ اگر اس سے مسئلہ حل ہو جائے تو اس فانوس اور منبر اور پوری مسجد کو بیچ دو۔‘

معيشت کی بدحالی

ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ مسجد سارا سال بند رہتی ہے، ہر تین ماہ بعد کھلتی ہے تاکہ سو لوگ اسے استعمال کر سکیں، پھر اسے دوبارہ بند کر دیا جاتا ہے۔

ایک تیسرے صارف نے میگا پراجیکٹس پر زیادہ خرچ کرنے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ’اچھا، ہمیں ان لوگوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے جنہیں کھانا نہیں ملتا یا جو نوجوان شادی نہیں کر سکتے؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے پاس سب سے بڑی مسجد، سب سے بھاری فانوس ہے۔ اور سب سے بڑا غیر ملکی قرض جو ہم قیامت تک ادا کرتے رہیں گے۔‘

صدر السیسی نے، جو 2013 میں فوجی بغاوت کے بعد اقتدار میں آئے تھے، تقریب کے شرکا، کارکنوں اور گلوکاروں کا شکریہ ادا کیا، جس میں وزیراعظم نے بھی شرکت کی۔

ان کے سرکاری ترجمان نے سوشل میڈیا پران کی تقریبات سے لطف اندوز ہونے کی تصاویر پوسٹ کیں جبکہ مقامی میڈیا نے اسے ایک ’نئی جمہوریہ‘ کے دور کا آغاز قرار دیا۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.