پاکستان میں صوبہ سندھ کی پولیس ڈاکوؤں کی نگرانی اور اُن سے مقابلے کے لیے ڈرونز کی خریداری کر رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ پولیس زمین کے بجائے فضا سے ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنے کا کیوں سوچ رہی ہے اور کیا کچے کے جنگلات میں یہ ڈرونز کارگر ثابت ہوسکتے ہیں؟
سندھ پولیس کے ایک خط کے مطابق انھوں نے پاکستان کے اسلحہ ساز ادارے پاکستان آرڈیننس فیکٹری سے چالیس سرولینس ڈرونز میٹرکس 300 نائیٹ ویژن اور 30 ابابیل فائیو ڈرونز کی خریداری کے لیے رابطہ کیا ہے۔
ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ان کا محکمہ یہ خریداری کر رہا ہے۔ اور ان کے ضلع میں ان ڈرونز کی تجرباتی پرواز کا عمل بھی مکمل ہو چکا ہے۔
ڈرونز کے استعمال کا فیصلہ کیوں ہوا؟
گھوٹکی کے علاقے راونتی کے کچے میں گذشتہ ماہ ڈاکوؤں کے حملے میں ایک ڈی ایس پی اور دو ایس ایچ اوز سمیت پانچ اہلکاروں ہلاک ہوگئے تھے۔ جبکہ اس سے قبل کشمور۔ شکارپور میں بھی گذشتہ دو برسوں میں اسی نوعیت کے ڈاکوؤں کے حملوں میں 20 کے قریب پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایس ایس پی تنویر تنیو کے مطابق گھوٹکی میں حملے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی پولیس کی سربراہی میں اعلیٰ سطح پر اجلاس اور مشاورت کے بعد ڈاکوؤں کے خلاف کارروائیوں اور ان کی نگرانی کے روایتی انداز میں جدت لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کچے میں جزیرے بنے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی کے تالاب اور جھیلیں ہیں اور اس۔ علاقے کی یہ جغرافیائی صورتحال ڈاکوؤں کے حق میں جاتی ہے۔ ’اسی وجہ سے ماضی قریب میں بیشتر کارروائیوں میں پولیس کی شہادتیں ہوئیں اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف میں کچے کے علاقے میں محکمہ جنگلات کی لاکھوں ایکڑ زمین موجود ہے۔ جس میں سے محکمے کے مطابق وسیع رقبے پر ڈاکوؤں کا قبضہ ہے۔‘
’پولیس خوفزدہ ہے ‘
حکومت سندھ نے رواں سال ایک حکم نامہ جاری کر کے سندھ میں 275 ڈاکوؤں اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے سر کی قیمت مقرر کی ہے۔ جن پر مجموعی طور پر 50 کروڑ روپے انعام مقرر کیا گیا ہے۔
ان میں ہر ڈاکو پر پانچ لاکھ سے لے کر 70 لاکھ روپے تک کا انعام شامل ہے۔
ان ڈاکوؤں میں زیادہ تر کا تعلق شکارپور ضلع سے ہے۔ اور محکمہ پولیس کے مطابق شکارپور سے تعلق رکھنے والے مطلوب ڈاکوؤں کی تعداد 146 ہے۔ دوسرے نمبر پر کشمور ہے۔ جہاں 64 اور تیسرے نمبر پر گھوٹکی ہے۔ جہاں 33 انتہائی مطلوب ڈاکو ہیں۔
سندھی ٹی وی چینل ’کے ٹی این‘ سے وابستہ صحافی جان محمد مہر کے مطابق پولیس آپریشنز کے دوران ساتھیوں کی ہلاکتوں۔ غیر مؤثر اسلحے اور بکتر بند میں بھی گولیاں لگنے کی وجہ سے پولیس اہلکار خوفزدہ ہیں۔ اسی لیے وہ زمینی لڑائی سے گھبراتے ہیں۔
جان محمد کچے کے علاقے میں۔ جا کر ڈاکوؤں کے انٹرویو بھی کر چکے ہیں۔