کوٹا: انڈیا کے ’سرکاری افسر بنانے والا شہر‘ جہاں اب ہاسٹل اور کوچنگ سینٹر خالی پڑے ہیں

سونو گوتم گذشتہ دو سالوں سے آٹھ منزلہ ہاسٹل کی پہلی منزل پر ایک کمرے میں رہ رہے ہیں۔ ان کا تعلق اتر پردیش کے شہر کانپور سے ہے۔

وہ ایک بستر کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں، اردگرد چائے بنانے کے لیے ایک چھوٹا سا سیلنڈر اور ہر طرف کتابیں اور بکھرے ہوئے نوٹ ہیں۔ سونو 2500 روپے ماہانہ کرائے پر دیے گئے. اس کمرے میں اکیلے رہتے ہیں۔ ان کے زیادہ تر دوست کوٹا شہر چھوڑ چکے ہیں۔

ایک زمانے میں ان کا ہاسٹل طلبہ کی سرگرمیوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔ اب یہ تقریباً خالی پڑا ہے۔

سونو کہتے ہیں کہ اب بچے کم ہو گئے ہیں۔ کوچنگ میں بھی پہلے جتنے بچے نظر نہیں آتے۔ میں دو سال سے گھر نہیں گیا ہوں۔ گھر جاؤں گا. تو گاؤں والے پوچھیں گے کہ ابھی تک کامیاب کیوں نہیں ہوا۔

ہندی میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے والے سونو کے لیے انگریزی میں کوچنگ نہ صرف ایک چیلنج ہے بلکہ شہر کا بدلتا ہوا ماحول بھی کم مشکل نہیں ہے۔

اب وہ اپنا زیادہ تر وقت خود سے پڑھنے اور بات کرنے میں صرف کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس بات کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہاسٹل کے آدھے سے زیادہ کمروں میں تالے پڑے ہیں۔

یہ حالت صرف سونو گوتم کے ہاسٹل میں ہی نہیں ہے۔ شہر سے دس کلومیٹر دور 25 ہزار طلبا کے لیے بنایا گیا پورا کورل پارک سٹی بھی اسی خالی پن کا شکار ہے۔

کامیابی

گذشتہ چند سالوں میں یہاں طلبا کے لیے 350 سے زیادہ ہاسٹل بنائے گئے ہیں۔

ملک کے کونے کونے سے ہر سال لاکھوں طلبا کامیابی کے خواب، دنیا کو فتح کرنے کے جذبے اور آگے بڑھنے. کی امیدوں کے ساتھ کوٹا پہنچتے ہیں۔

،سونو گوتم کانپور کے رہنے والے ہیں اور پچھلے کئی سالوں سے کوٹا میں NEET کی تیاری کر رہے ہیں

گذشتہ دو دہائیوں میں دس لاکھ کی آبادی والے کوٹا شہر کے کئی علاقوں کو ہاسٹلز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ انجینیئرنگ اور میڈیکل کورسز کی تیاری کرنے والے طلبا ہر جگہ نظر آتے ہیں۔

لیکن اب کوٹا کی چمک آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔ اربوں روپے کی کوٹا کوچنگ انڈسٹری اب طلبا کی طاقت سے پروان چڑھ رہی ہے۔

کوٹا کی معیشت

وہ ہاسٹل جو طلبہ سے بھرے رہتے تھے، اب ان کے کمروں کو تالے لگ چکے ہیں۔

اس سے نہ صرف ہاسٹل انڈسٹری بلکہ شہر کے باقی لوگ بھی متاثر ہوئے ہیں۔ جب کوٹا کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے طلبا کی تعداد کم ہو جاتی ہے تو ظاہر ہے معیشت بھی متاثر ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ آئی آئی ٹی اور این ای ای ٹی کوچنگ کے نام پر لوگوں کے ذہنوں میں سب سے پہلے جس کا نام آتا ہے اس کوٹا میں ایسی صورتحال کیوں ہے؟ کم بچے کوچنگ کے لیے کیوں پہنچ رہے ہیں؟ اور کیا کوٹا اس بحران پر قابو پا سکے گا؟

کوٹا کوچنگ انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سال شہر میں تقریباً تیس فیصد کم طلبہ آئے ہیں۔
،تصویر کا کیپشنکوٹا کوچنگ انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سال شہر میں تقریباً تیس فیصد کم طلبہ آئے ہیں

طلبہ کی تعداد میں کتنی کمی؟

90 کی دہائی میں وی کے بنسل نے کوٹا کے وگیان نگر سے کلاسز شروع کیں۔ کچھ بچوں کو کوچنگ دے کر شروع ہونے والا یہ سلسلہ جلد ہی ایک بڑے کارواں میں تبدیل ہو گیا۔

اس کے بعد بہت سے کوچنگ اداروں نے کوٹا کو انجینئرنگ اور میڈیکل کی تیاری کا اپنا مرکز بنایا اور آہستہ آہستہ یہ شہر کوچنگ انڈسٹری میں تبدیل ہو گیا۔

نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی کے مطابق، سال 2024 میں تقریباً 23 لاکھ طلباء نے .NEET کا امتحان دیا تھا اور تقریباً 12 لاکھ طلباء نے JEE کا امتحان دیا تھا۔

کوٹا ہاسٹل ایسوسی ایشن کے صدر نوین متل کا کہنا ہے. کہ گزشتہ دو دہائیوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوٹہ آنے والے طلبہ کی تعداد میں 25 سے 30 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔

ای کورس کے بانی اور دو دہائیوں سے کوٹا کوچنگ انڈسٹری میں کام کرنے والے. ڈاکٹر سوم ویر بھی کچھ ایسا ہی کہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کورونا کے بعد اتنے بچے کوٹا آئے، جن کی کوٹا نے کبھی توقع نہیں کی تھی، لیکن آہستہ آہستہ بچوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ اس سال صورتحال ایسی ہے کہ صرف ایک یا سوا لاکھ بچے کوٹا آئے ہیں۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.