’میں علی کو سائیکل پر دکان سے سودا لینے بھیجتی ہوں۔ جب وہ جاتا ہے تو میں دوسری طرف سے چوری چھپے اس کے پیچھے جاتی ہوں تاکہ اس پر نظر رکھ سکوں۔ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ میں اس کے پیچھے ہوں۔ میرا مقصد صرف یہ دیکھنا ہے کہ کوئی اسے تنگ نہ کرے۔ میں بس اسے پُر اعتماد بنانا چاہتی ہوں۔‘
یہ الفاظ شہناز غنی کے ہیں، جو بین الاقوامی کراٹے چیمپیئن 14 سالہ علی احمد کی والدہ ہیں۔ علی ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہیں، جو ایک جینیاتی عارضہ ہے اور جسمانی اور ذہنی مشکلات کا سبب بنتا ہے۔
کراٹے میں اپنا لوہا منوانے کے بعد اب علی ماڈلنگ کی دنیا میں بھی قدم رکھنا چاہتے ہیں۔
ان کی والدہ شہناز نے بتایا کہ علی نے گذشتہ برس ایران میں ہونے والے تیسرے بین الاقوامی کراٹے ٹورنامنٹ میں سونے کا تمغہ جیتا۔
ان کی والدہ کے مطابق علی قومی سطح پر بھی کراٹے کے مقابلوں میں حصہ لے کر انعامات جیت چکے ہیں جبکہ اب وہ آئندہ چند ماہ میں تائیکوانڈو کی تربیت کے لیے اپنے کلب ’اوکیناوا مارشل آرٹس اینڈ فٹنس کلب‘ کے ذریعے جاپان جانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
’بس اس کے لیے میرا بیٹا سپانسر کی تلاش میں ہے۔‘
شہناز نے بتایا کہ کراٹے کے علاوہ علی کو ماڈلنگ کا جنون کی حد تک شوق ہے لیکن ابھی تک انہیں کوئی چانس نہیں ملا۔
’بس ایک مرتبہ ایک فوڈ چین کے لیے علی نے ماڈلنگ کی تھی۔ انہیں پانچ ہزار روپے ملے اور وہ لباس بھی جو انہوں نے شوٹ کے دوران پہنا۔ وہ اشتہار صرف خاص بچوں پر مبنی تھا. اسی لیے علی بھی اس کا حصہ تھے۔‘
’علی نارمل بچوں کی ٹیم میں رہے‘
شہناز نے بتایا کہ علی کو جاپان بھیجنے کے لیے ان کے پاس اتنے فنڈز نہیں ہیں البتہ پنجاب پولیس نے مدد کا یقین دلایا ہے۔ وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ علی کو پولیس میں کوئی اعزازی نوکری مل جائے. تاکہ وہ کراٹے اور تائیکوانڈو کو جاری رکھ سکیں۔
علی احمد کے والد ایک ریٹائرڈ سینیئر پولیس افسر ہیں۔ علی سوشل میڈیا پر بھی متحرک ہیں اور انہوں نے انسٹاگرام اکاؤنٹ اور یوٹیوب چینل بھی بنا رکھا ہے۔
والدہ کا کہنا تھا. کہ علی اب تک جس بھی ٹورنامنٹ میں گئے، وہ نارمل بچوں کی ٹیم میں گئے۔
شہناز کے بقول: ’سپیشل اولمپکس والوں نے ہمیں پلو ہی نہیں پکڑایا کیونکہ ان کے مطابق ان گیمز میں کراٹے نہیں ہے۔ میں نے اسی لیے اب علی کو تائیکوانڈو میں ڈال دیا کیونکہ وہ سپیشل اولمپکس میں ہے. لیکن پھر بھی انہوں نے ابھی تک ٹیم میں شامل نہیں کیا۔‘
شہناز نے بتایا کہ انہوں نے دو سال کی عمر میں ہی علی کی پڑھائی کا آغاز کر دیا تھا۔ انہیں مختلف سپیشل بچوں کے سکولوں میں داخل کروایا لیکن وہ مطمئن نہیں ہوئیں، اس لیے انہوں نے خود اس بات کا بیڑا اٹھایا کہ علی کو زندگی میں پُراعتماد بنانا اور اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔