
بیکٹیریا کی انتہائی مرغوب غذاؤں میں چینی اور اس سے بنے پکوان شامل ہیں اور بیکٹریا اِن پر تیزی سے پلتے بڑھتے ہیں۔ مگر شہد ایک ایسا قدرتی میٹھا ہے جس کے جہاں فوائد بے شمار ہیں وہیں دیگر میٹھوں کی نسبت یہ بیکٹیریا سے بڑی حد تک محفوظ رہتا ہےاور طویل عرصے تک خراب ہونے سے بچا رہتا ہے۔
تو آخر وہ کون سی جادوئی خصوصیات ہیں. جس کی بدولت شہد جراثیم کو مات دے دیتا ہے؟
زیادہ تر ڈبوں میں موجود کھانے، پینے کی اشیا محدود مدت کے لیے ہی قابل استعمال ہوتی ہیں اور اُن کو تباہ کرنے کے لیے بس ایک چمچ کی ان ڈبوں میں ڈبکی ہی کافی ہوتی ہے. جس سے اس میں پھپھوندی کی تہہ یا بیکٹیریا کی پوری بستی آباد ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ تاہم کچھ غذائیں غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں. اور برسوں تک استعمال کے قابل رہ پاتی ہیں، انھی میں سے ایک شہد ہے۔
شہد کو اگر انتہائی بند ماحول میں رکھا جائے. تو یہ سنہری مادہ اگرچہ کرسٹل کی صورت اختیار کر کے گاڑھا اور دانے دار ہو سکتا ہے. لیکن ظاہری شکل بدلنے کے باوجود شہد خراب نہیں ہوتا۔ اس کی گلنے سڑنے سے مزاحمت کی مستقل صلاحیت اس کی کیمیائی خصوصیات اور اس کے بننے کے طریقے میں پوشیدہ ہے۔
خوراک
جب ہم کہتے ہیں کہ خوراک خراب ہو گئی یا سڑ گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی اور ایسی شے اس میں سرائیت کر گئی ہے جو عام آنکھ سے شاید دکھائی نہ دے۔
بیکٹیریا، پھپھوندی اور فنگس کم یا زیادہ تعداد میں زیادہ تر خوراک میں موجود ہوتے ہیں. اور خوراک کو محفوظ کرنے کے جو طریقے انسان استعمال کرتے ہیں. ان کا مقصد ہی ان جرثوموں کو اس خوراک پر کچھ وقت کے لیے. پلنے سے روکنا ہوتا ہے۔
ان میں سے بہت سے خوردبینی ( عام آنکھ سے دکھائی نہ دینے والے) جاندار اپنے پھلنے پھولنے کے لیے. نمی والے حالات، قدرے زیادہ درجہ حرارت، معتدل پی ایچ (pH) اور وافر آکسیجن والے ماحول کو پسند کرتے ہیں۔
اسی لیے گوشت یا پھل کو خشک کر کے رکھنا تجویز کیا جاتا ہے۔
خوراک کو تیز درجہ حرارت پر پکانا اور پھر فریج میں رکھنا زیادہ تر جراثیموں کو ختم کر دیتا ہے اور جو باقی بچ جاتے ہیں. اُن کی افزائش کا عمل قدرے سُست پڑ جاتا ہے۔
کسی چیز کو ہوا بند جار میں رکھنے سے بھی آکسیجن کی رسائی بھی محدود ہو جاتی ہے. اور چیز زیادہ دیر تک قابل استعمال رہ سکتی ہے۔